14 ربیع الثانی 1211 ھ کو جناب آیت اللہ العظمی سید دلدار علی صاحب کے گھر سید العلما مولانا سید حسین صاحب کی ولادت ہوئی ۔ خورشید کمال مادہ تاریخ ہے۔
جناب غفران مآب نے ایک مرتبہ خواب دیکھا کہ امام حسین علیہ السلام فرما رہے ہیں تم نے اپنی اولاد نرینہ کے نام رکھنے میں پنجتن کا سلسلہ کیوں موقوف کردیا ؟ آپ نے عرض کیا اب میں ضعیف ہوگیا ہوں اس لئے آخری فرزند کا نام آخری امام ؑ کے نام پر رکھا۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: ایک فرزند اور ہوگا اس کا نام میرے نام پر رکھنا۔
اس لئے نو مولود فرزند کا نام حسین رکھا ۔ عرف میں میرن صاحب قرار پایا ۔
بچپنے میں کھیل کود سے دلچسپی نہ تھی۔ چار پانچ بھائی پڑھنے لکھنے والے ، اندر باہر لوگ احترام و عزت سے پیش آنے والے نظر آتے تھے۔ لہذا اخلاق و کردار میں طبعی میلان اور ماحول نے دل کشی پیدا کردی۔
ابتدائی تعلیم کے بعد والد بزرگوار سے پڑھنے لگے ۔ جب ان کی طبیعت ناساز ہوئی تو سلطان العلما سے درس لیا اور جب ان کا مزاج رو بصحت ہو گیا تو پھر ان سے سبق شروع کردیے۔ عماد الاسلام شرح اربعین ، بہاء الدین عاملی، کافی (اصول و فروع) منتقی الجمان ، غفران مآب سے پڑھی اور سلطان العلما سے سلم العلوم ، شرح حمد اللہ سیف ماسح کا درس لیا۔
دونوں بزرگوں نے اجازہ دیا۔
مفتی محمد عباس صاحب نے منطق و فلسفہ ، ہیئت و ہندسہ ، تجوید و ادب ، علم الکلام ، اصول فقہ و فقہ میں یکتای روزگار مانا ہے ۔
ذہانت و ذکاوت شوق و محنت کی بدولت سترہ برس کی عمر میں تجزی فی الاجتہاد پر رسالہ لکھا ، دوسرا مقالہ حکم ظن در رکعتین اولیین ، تحریر کیا مگر شرم کی وجہ سے والد سے اس کا اظہار نہ کیا۔ جناب غفران مآب نے فرمایا کہ اجازہ کے لئے یاد دہانی کرانا، اجازہ لکھ دوں گا عرض کیا کہ کسی وقت میری تحریر بھی ملاحظہ فرما لیجئے ، جناب نے درخواست منظور فرمالی لیکن ناسازی مزاج کی بنا پر سلطان العلما کو حکم دیا کہ رسالے کو دعکھ کر اپنی رائے سے مطلع کرو، مولانا سید محمد صاحب نے تعمیل حکم فرمائی ، خود مولانا دلدار علی صاحب نے بھی نظر ڈالی اور فرمایا : ماہرانہ باتیں لکھیں۔ مبتدیانہ کمزوریاں نہیں ہیں۔ اس کے بعد اجازہ دے دیا ۔
جامعیت تحریر و تقریر کا عالم یہ تھا کہ بحث سبق کے درمیان برجستہ کہی بات آخر تک اپنا وزن ظاہر کرتی رہتی ، استفتا کے جواب میں جو جملہ لکھ دیا وہ مسئلے کے تمام پہلووں کو گھیر لیتا تھا، عراق و ایران کے فقہی ماحول اور اصولی فضا کے رہنے والے اس دراکی پر حیران ہوجاتے تھے ۔
لوگوں کی رجوع ، عوام کی محبت ، طلبا کا ہجوم ، سائلوں کا مجمع ، افاضل کی گرویدگی کا عالم دیدنی ہوتا تھا۔ لکھنو کوثانی نجف بنا دیا تھا ۔ عرب و عجم سے مراسلت تھی ، بادشاہ بھی تعمیل حکم کو شرف جانتے تھے ۔
بادشاہ ثریا جاہ مصلح الدین ابو المظفر محمد امجد علی شاہ جنت مکان نے مولانا ہی کے اشارے سے مدرسہ سلطانیہ قائم کیا ۔
’’حاوی علوم دین ، حامی سادات ، مومنین، حافظ احکام اللہ، مجتہد العصر ، سید العلما ‘‘ یہ مہر کندہ کرا کے نذر کی اور سرکاری طور پر مولانا کو انھی القاب سے یاد کرنے کا فرمان جاری ہو گیا۔
سلطان العلما مولانا سید محمد صاحب نے شرعی احکام کے نفاذ کی جو مہم شروع کی تھی ، امجد علی شاہ نے اسے قبول کیا ۔ شریعت کا نفاذ ہوا اور سلطان العلما کو عدلیہ و انتظامیہ کی نگرانی حاصل ہوئی ، سید العلما مولانا سید حسین صاحب کو نگران تعلیم کا غیر رسمی منصب ملا اور وہ پورے ملک میں دینی سربراہ بن کر ابھرے ۔
بادشاہ سکندر جاہ، ابولمنصور ناصر الدین حضرت سلطان عالم محمد واجد علی شاہ بہادر بھی ہمیشہ خلوص و عقیدت و اخلاص و ارادت سے پیش آتے رہے۔
سلطان العلما سید محمد صاحب تمام معاملات میں چھوٹے بھائی کی رائے کو مقدم سمجھتے رہے۔ موصوف نے ممتاز العلما سید محمد تقی صاحب کے اجازے میں لکھا ہے:
السميدع الالمعي و الحبر اللوذعي، ذی النظر الصائب و الذهن الثاقب، عالى الكعب في الفنون العقليه، طویل الباع في العلوم النقلية، الراتع في رياض الاجتهاد و الافاده الكارع من احادیث الجد و السادة، سیدالعلماء العالمین سند الفقهاء الكاملين عين الانسان و انسان العين اخي وضوی و مهجة قلبي السيد حسين لازال قرير العين محفوظا عن اصابة العين».
اعلام و مجتہدین عظام سے برابر کے تعلقات استوار تھے ۔ شیخ الشیوخ محمد حسن النجفی مولف جواہر الکلام کے مفصل و طویل خط چھپ چکے ہیں ۔ ہزاروں مقلدوں ، حاجت مندوں ، شاگردوں کے خطوط کا انبار ملنے والوں کا مجمع، طلبا کا ہجوم ، اہل حاجت کا جم غفیر ، وعظ و تذکیر ، درس و تدریس، خطوں کے جواب ، کتابوں کی تصنیف ، مومنین کی عیادت ، محتاج مسکین ، یتیم اور بیوگان کی خبر گیری۔
تقسیم اوقات
آخر شب میں مسجد میں آنا، نوافل و فرائض و تعقیبات کے بعد واپسی اور زنانخانے میں جانا، وہاں تصنیف و تالیف کا کام کرنا ، کچھ ضروری کاغذات دیکھنا ۔
دس بجے تقریبا مردانے مکان میں تشریف آوری ، پہلے درس دینا، درس میں اکثر افاضل علما شریک ہوتے تھے ۔ درس کے بعد اہل حاجت کی عرضیوں پر حکم ان کو حسب امکان داد و دہش ، فتوی مانگنے والوں کو فتوے دینا ۔
بعد زوال مسجد میں نماز ظہرین پڑھانا اور تعقیبات عصر کے بعد برادر بزرگ سلطان العلما کی خدمت میں حاضری کے بعد گھر واپسی ، مغرب تک درس اور گھر پر نماز جماعت ۔
مغربین کی نماز کے بعد احباب و مسترشدین سے بات چیت اور جواب طلب خطوں کے جواب و فتوی ، کبھی اس نشست کا سلسلہ نصف شب تک کھینچ جاتا تھا۔
اولاد
سید علی حسین (حکومت ہند اودھ نے زین العابدین خطاب دیا تھا ، علوم طبیہ میں کامل تھے ، 1264 ھ میں رحلت کی )
ممتاز العلما سید محمد تقی جنت مآب
زبدۃ العلما سید محمد نقی
مولانا سید عبد الجواد (اودھ کی ریاست میں پیش نماز تھے )
حلیہ
میانہ قد، نحیف و لاغر ، کتابی چہرہ ، نور ساطع، ریش مبارک گھنی ہوئی تھی ۔
اخلاق
شہرت کی زیادتی سے عاجزی و انکساری بڑھتی گئی، بیوہ اور یتیموں پر مہربان ، طلبہ اور زائرین پر شفیق تھے۔ قبول دعا اور زبان کی تاثیر کا یہ عالم ۔