براہ کرم پہلے مطلوبہ لفظ درج کریں
سرچ
کی طرف سے تلاش کریں :
علماء کا نام
حوزات علمیہ
خبریں
ویڈیو
15 رَمَضان 1446
ulamaehin.in website logo
مولانا وزیر عباس حیدری
مولانا وزیر عباس حیدری

Maulana Wazir Abbas Haideri

ولادت
9 شعبان 1388 ه.ق
گڑھی مجھیڑہ سادات
وفات
22 رمضان المبارک 1442 ه.ق
دہلی
والد کا نام : حیدر حسن
تدفین کی جگہ : گڑھی مجھیڑہ سادات
شیئر کریں
ترمیم
کامنٹ
سوانح حیات
تعلیم
تبلیغی سرگرمیاں
تألیف و تصنیفات
شاعری
اولاد
آپ کی خصوصیات
وفات
تصاویر
متعلقہ لنکس

سوانح حیات

آپ کی پیدائش

مولا نا وزیر عباس حیدری ضلع مظفر نگر کے ایک چھوٹے سے قریہ گڑھی مجھیڑہ سادات میں کیکم نومبر ۱۹۶۸ میں متولد ہوئے تھے، آپ کے والد جناب حیدر حسن مرحوم کا پیشہ زراعت تھا جو نہایت شریف النفس، زندہ دل اور محنت کش شخصیت کے مالک تھے بحسن اخلاق ، خوش مزاجی ، انکساری صوم و صلوۃ کی پابند، جیسے متعدد صفات آپ کی شخصیت کے نمایاں وصف تھے ۔

مگر بچپن میں آپ اپنے والد گرامی کے سایہ عاطفت سے محروم ہو گئے اور بچپن ہی سے آپ کے کاندھوں پر ذمہ داریوں کابوجھ پڑ گیا۔

 

عادت و اطوار :

مولا نا وزیر عباس حیدری عادت و اطوار کے اعتبار سے تخلیقی طور پر ہی انتہائی کم سخن سنجیدہ مزاج، زیرک اور ذہین تھے ، دیگر اطفال کی مانند کھیل کو ، دوڑ دھوپ ، بحث و مباحثہ اور گفت و شنید سے سدا متنفر رہتے تھے، ذکاوت ، فکرمندی ، تدبر جیسے اعلیٰ صفات تخلیقی طور پر آپ کی طبیعت میں موجود تھے ، اکثر اوقات خاموش رہنا فقط بقدر ضرورت مختصر مگر جامع و مانع کلام کرنا آپ کی شخصیت کے اہم اوصاف میں شامل تھا۔

آپ بچپن ہی سے جفاکش محنتی ، انتہائی ذمہ دارانہ طبیعت کے مالک تھے اور اپنے والد گرامی کے انتقال کے بعد اپنے بڑے بھائی جناب نذیر عباس صاحب ( خدا ان کو سلامت رکھے ) کے ساتھ زرعی افعال میں ان کی مکمل کمک فرماتے اور ہر چھوٹے بڑے کام میں ہاتھ بٹانے کی کوشش کرتے تھے جتنی کہ ابتدائی عمر میں ہی آپ نے افعال زراعت میں خاصی دسترس حاصل کر لی تھی۔

 

سایہ پدری سے محرومی :

مولانا موصوف کی زندگی ابتدائے حیات سے ہی نشب وفراز کا شکار رہی ہے، دردو غم ، رنج والم ، دکھ تکلیف سے آپ کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے،مولانا وزیر عباس حیدری کو متولد ہوئے ابھی چند سال ہی گذرے تھے گویا ابھی آپ عبد طفولیت کی منازل طے کر ہی رہے تھے کہ آپ کے والد بزرگوار کا سایہ عاطفت آپ کے سر سے اٹھ گیا اور رنج وغم کے بادل آپ کی زندگی کے اوپر ایک سائے کے مانند چھا گئے، اولاد کا سایہ پدری سے محروم ہو جانا کسی قیامت سے کم نہیں ہوتا ، والد مرحوم کے انتقال کے بعد آپ کے بڑے بھائی جناب نذیر عباس صاحب کی شفقتوں اور محبتوں کے سائے میں زندگی آگے بڑھنے لگی جب آپ نے کمسنی کی دہلیز پر قدم رکھا تو بڑے بھائی کے ہمراہ زرعی افعال و دیگر کاموں میں دوڑ دھوپ کرنے لگے اور بہت جلدی اپنی ذمہ داریوں کومحسوس کر کے اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی کوششوں میں مصروف رہنے لگے ، اسی وجہ سے آپ درجہ پنجم پاس کرنے کے بعد مدرسہ جعفریہ گڑھی مجھیڑ ہ سادات میں معلمی کے فرائض کے انجام دہی میں مصروف ہو گئے تھے۔

 

عبادت وریاضت :

مولانا وزیر عباس حیدری متقی، پرہیز گار، عابد شب زندہ دار، یاد الہی میں غرق رہنے والی شخصیات میں شمار کئے جاتے تھے موصوف کے جملہ حیات ذکر محمد وآل محمد اور یا دالہی میں بسر ہوئی ، مرحوم کی بے لوث علمی اور ادبی خدمات بھی آپ کی عبادات کا جز ولا نیفک ہیں ، آپ کی علمی صلاحیت ، قابلیت اور لیاقت کے ساتھ خوش اخلاقی ، آداب اسلامی ہمنکسر المزاجی ، رقیق القلبی جیسے عظیم جذبات اور مسلسل ریاضت نے آ۔ صفت نے آپ کی مکمل حیات کو عبادت کا پیکر بنادیا تھا، چونکہ ابتدائے حیات سے ہی مولانا موصوف کو منتقی و پرہیز گار افراد اور اساتید کی صحبت کا شرف ملتا رہا، جس نے جذ بہ عبادت وریاضت کو آپ کی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنادیا تھا۔ اکثر اوقات عبادت الہی میں بسر کرنا، نماز پنجگانہ کے بعد تسبیحات و وظائف پڑھنا اور ہمہ وقت درود شریف، استغفار اور دعاؤں کو ورد زبان رکھنا آپ کے معمولات زندگی میں شامل تھا۔

مزید دیکھیں

تعلیم

ابتدائی تعلیم اور عہد طفولیت:

آپ کا عہد کمسنی اپنے آبائی وطن گڑھی مجھیڑ ہ سادات میں بسر ہوا، آباؤ اجداد کا شغل زراعت تھالہذا آپ بھی اکثر اوقات اپنے برادر اکبر کے ہمراہ کھیتی باڑی کے افعال میں مشغول رہتے تھے ، زمانے کے رسم و رواج، وقت اور سماج کی رفتار کے اور روایت کے مطابق قرآن مجید، اور دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ ابتدائی تعلیم وطن ہی کے ایک مکتب امامیہ سے حاصل کی اور دنیا وی تعلیم وطن عزیز کے قریبی قصبہ میرانپور کے ایک سرکاری اسکول سے حاصل کی ۔ گڑھی مجھیڑ ہ سادات میں اس وقت بھی اداره تنظیم المکاتب کا مدرسہ جعفریہ موجود تھا، آپ نے درجہ پنجم کی سند حاصل کر کے اسی مدرسہ جعفریہ میں بطور مدرس منتخب ہو گئے ، اور اپنے شفیق و مہربان استاد محترم عالیجناب مولانا سید عباس حیدر قبلہ صاحب قبلہ (خدا غریق رحمت فرمائے) کے ساتھ معلمی کے فرائض انجام دیتے ہوئے ایک اچھے اور کامیاب معلم کے فرائض منصبی کو بحسن وخوبی نبھایا اور معلمی کے ساتھ ساتھ گھر کے کام اور اپنے برادر محترم کے ہمراہ کا شکاری کے افعال میں بھی مصروف رہتے ہوئے مسلسل کئی سال تک بحیثیت مدرس مدرسہ جعفریہ میں خدمات انجام دی اور ایک پختہ کار، تجربہ یافتہ اور کہنہ مشق معلم کے مانند کام کیا۔ آپ خود تصور کریں کہ درجہ پنجم پاس کرنے کے بعد اسی مدرسہ جعفریہ میں درجہ پنجم تک کے طلاب کو تعلیم دینا کتنا مشکل امر ہوتا ہے، لیکن مولانا موصوف نے مدرسہ جعفریہ میں ایک کامیاب معلم کی طرح اپنے فرائض کو نبھایا۔

 

لڑکپن اور حصول علم :

اس میں کوئی شک نہیں کہ مولانا وزیر عباس حیدری انتہائی جفاکش محنتی اور تخلیقی طور پر ذہین و فعال شخصیت کے مالک تھے ، مدرسہ جعفریہ میں معلمی کے فرائض کی انجام دہی کے دوران آپ نے مطالعہ کتب بینی اور حصول علم جیسے جذبات کو سرد نہیں پڑنے دیا ، آپ نے اکتساب علوم وفنون میں انتہائی جانفشانی اور زندہ دلی کا مظاہرہ کیا، جس سے آپ کی تشنگی حصول علم میں شب وروز اضافہ ہوتا گیا، جس کے لئے وطن کی سرزمین و قرب و جوار کی فضا میں تنگ نظر آنے لگی تعلیم وتعلم سے غیر معمولی دلچسپی اور درسیات سے طلسماتی انسیت نے آپ کو ترک وطن کرنے پر مجبور کر دیا لہذا آپ اسی جذ بہ شوق کو دل میں بسائے اور تمنائے رفع تشنگی کو قلب میں سجائے رخت سفر باندھ کر منزل مراد کی جانب گامزن اور دانہ ہو گئے اور جنوری ۱۹۸۳ کو ہندوستان کی مشہور ومعروف درسگاہ مدرسہ باب العلم اور پٹیل کالج نوگانواں سادات میں داخلہ لیکر حصول مقصد میں مصروف ہو گئے لیکن مدرسہ باب العلم میں آپ زیادہ دن مقیم نہ رہ سکے ،صرف ۱۵ ماہ کی مختصر مدت گزارنے کے بعد آپ نے مدرسہ باب العلم و خیر آباد کہ دیا اور اپنے وطن گڑھی مجھیڑ ہ سادات مراجعت فرمائی اور کاشتکاری و دیگر افعال میں مصروف ہو گئے مگر تعلیم تعلیم سے والہانہ شغف اور جذ بے حصول علم نے آپ کو ترک وطن کرنے پر پھر اس قدر مجبور کیا کہ آپ نے خواہشات نفس کی مکمل مخالفت کرتے ہوئے رخت سفر باندھ ہی لیا اور تقریبا جون ۱۹۸۳ میں حوزہ علمیہ امام حسین مظفر نگر میں داخلہ لے کر حصول علم میں ہمہ تن مصروف ہو گئے ، اس وقت بھی مدرسہ کے ذہین مجتہد ، کم کن اور شریف النفس طلبہ میں آپ کا شمار کیا جاتا تھا ، آپ معمولی سے معمولی سوال کا جواب بھی آنا فانا نہیں دیتے تھے مخاطب کو توجہ اور انہماک سے سنتے توقف اور سکوت فرماتے ، اس کے بعد مختصر مگر جامع جواب دیتے تھے، آپ کے اس مد برانہ طریقہ گفتگو نے آپ کی شخصیت کو اور بھی زیادہ محترم اور قابل توجہ بنادیا تھا۔

 

اعلی تعلیم :

مولا نا وزیر عباس حیدری جیسے جیسے منازل حیات اور مدارج علوم طے کرتے گئے حصول علم اور کسب کمال کا جذ بہ مزید زور پکڑنے لگا گویا کسب علم و کمال کے ساتھ ساتھ موصوف کی تشنگی حصول علم مزید بڑھتی گئی ، اعلیٰ تعلیم کے جذبات ذہن و دل میں کروٹ بدلنے لگے اور طبیعت بیتاب ہونے لگی، کچھ عرصہ کے بعد ایران سے علماء حضرات ( ممتحن صاحبان ) کا ایک گروہ اپنی دیرینہ روایت کے مطابق ہندوستان کے مدارس میں طلبہ کا امتحان لینے کے لئے تشریف لایا اور مختلف مدارس سے متعد دطلبہ کو بحیثیت طالب علم ایران جانے کے لئے سلیکٹ کیا گیا ، خوش بختی سے علماء وممتحن حضرات کا وہ دستہ حوزہ علمیہ امام حسین مظفر نگر میں بھی تشریف فرما ہوا ، اور طلاب کا امتحان لیا اس امتحان میں مدرسہ کے ہونہار ، قابل ، ذہین ، فعال اور بہت ہوشیار طلاب کو بٹھایا جاتا ہے۔

مولانا وزیر عباس حیدری اس وقت حوزہ علمیہ امام حسین میں زیر تعلیم تھے، اور آپ کو حوزہ علمیہ میں داخلہ ہوئے ابھی زیادہ وقت بھی نہیں گذرا تھا لیکن آپ نے مختصر مدت کے باوجود اپنی فطری صلاحیت تخلیقی ذہانت انتھک محنت اور جہد مسلسل اور بے پناہ کوششوں سے مدرسہ کے طلاب میں اپنا ایک الگ مقام اور منفرد پہچان بنائی تھی ،تقریباً ۱۹۸۴ کی بات ہے جب آپ کو مدرسہ میں داخلہ لئے ہوئے فقط ابھی ایک سال ہی مکمل ہوا تھا کہ ایران سے علماء امتحان کے لئے تشریف لے آئے مدرسہ کے ذمہ داران نے آپ کی صلاحیت اور ذہانت پر بھروسہ کرتے ہوئے دیگر طلبہ کے ساتھ آپ کو بھی اس امتحان میں شرکت کی اجازت مرحمت فرمائی ، اس امتحان میں شریک ہونے کے بعد آپ نے اپنی قابلیت ،صلاحیت اور ذہانت کا ایسا لوہا منوایا کہ تمام ذمہ داران اور طلاب مدرسہ آپ کی ذات پر فخر کرنے لگے، آپ کو متحن حضرات نے منتخب ( سلیکٹ) کر لیا اس امتحان اور انتخاب نے آپ کو عروج کی وہ راہیں دکھا ئیں ، جس پر آج صرف آپ کا خانوادہ ہی نہیں بلکہ تمام اہل وطن فخر اور ناز کرتے ہیں، مذکورہ امتحان کے منتخب طلبہ کو اکتو بر ماہ میں ایران کی ویژہ دستیاب ہوئی اور ۲۶ /اکتوبر ۹۸۴! کومولا ناوزیر عباس حیدری ایران کے لئے روانہ ہو گئے اور ایران میں پہنچ کر پوری محنت اور دل جمعی کے ساتھ حصول علم میں مصروف و منہمک ہو گئے۔

 

ایران میں داخلہ کے بعد:

ظاہری بات ہے کہ ایک تشنہ لب کو کیا چاہیئے ؟ پانی ۔ اگر کوئی تشنہ لب خود لب دریا پہونچ جائے تو اس کے قلبی اطمینان ، ذہنی سکون اور مسرتوں کا کون اندازہ لگا سکتا ہے،۱/۲۶ اکتوبر ۱۹۸۴ کو تشنہ علم و ادب علوم و معارف کے بحر بے کراں حوزہ علمیہ ایران میں اپنی تشنگی بجھانے کے لئے پہونچ گئے تھے آپ نے دوران قیام ایران حصول علم کے علاوہ ایسے کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں جن کو ہماری قوم تا ابد فراموش نہیں کر سکتی ، دو سال کی مسلسل محنت اور لازوال کوششوں کے بعد تقریباً ۱۹۸۶ میں اپنے وطن گڑھی مجھیڑہ سادات واپس آکر ایک متحرک اور فعال شخصیت کے مانند تبلیغی سرگرمیوں میں مصروف ہو گئے اسی سال یکم ذی الحجہ کو مولانا موصوف رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے اور چند دن وطن میں قیام کرنے کے بعد واپس ایران روانہ ہو کر حصول علم میں مصروف ہو گئے اس کے بعد ایران سے ہندوستان آمد ورفت کا یہ سلسلہ تا دم مرگ جاری رہا آپ زہرا اکیڈمی قم سے بھی وابستہ تھے اور اسی اکیڈمی میں حصول علم میں مصروف تھے آپ نے وہاں تعلیم وتعلم دونوں فرائض انجام دیئے، حوزہ علمیہ ایران سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد آپ نے مسلسل کئی سال تک درس خارج کی کلاسوں میں بھی حصہ لیا ہے اور تادم مرگ بھی آپ حصول درس خارج میں مصروف و منہمک تھے ، آپ نے زہرا اکیڈمی سے تعلیم حاصل کی اور اب کافی عرصہ سے اس اکیڈمی میں مدرسی اور معلمی کے فرائض انجام دینے میں مصروف تھے۔

 

آپ کی تدریسی سرگرمیاں :

مولانا وزیر عباس حیدری کی شخصیت ہر جہت سے کامل و اکمل نظر آتی ہے،شرافت نفس کی منزل ہو یا اخلاقیات کا میدان ، مذاکرات عالمیہ کی بات ہو یا تحریر و تقریر کا مقام، آپ کی باقیات سے بھی آپ کی ذکاوت ، ذہانت اور جلالت علمی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے تبلیغ کی بات ہو یا تدریس کی منزل ، آپ نے ہر جگہ اپنی صلاحتیوں کا لوہا منوایا ہے، آپ حوزہ علمیہ ایران کی جانب سے تبلیغ و تدریس کے لئے ہندوستان تشریف لاتے رہتے تھے اور ہندوستان کے دینی مدارس میں تدریس کے فرائض انجام دیتے تھے علم و علم صرف منطق ، فلسفہ، فقہ، اصول فقہ، عقائد تفسیر علم کلام جیسے علوم کی تدریس پر آپ کو مہارت تامہ حاصل تھی ، شگفتہ لب ولہجہ، مسکراتا ہوا چہرہ، شیریں انداز بیان جاذب اور دلکش آواز اور طریقہ تدریس اتنا پراثر تھا کہ ایک جادوئی کیفیت پیدا ہو جاتی تھی، گویا کسی بھی موضوع اور علم کے عوارض ذاتیہ پر اس طرح روشنی ڈالتے تھے کہ مقصد کام اور بیان کا مرکزی خیال نگاہوں میں گردش کرنے لگتا تھا، گو یاکسی بھی موضوع پر لب کشائی کرنے سے قبل اس کے ایک ایک پہلو کو پہلے ذہن میں تولتے تھے اس کے بعد بولتے تھے۔ ہندوستان کے مشہور مدارس جیسے مدرسہ باب العلم نوگانواں سادات، حوزه علمیه امام حسین مظفر نگر وغیرہ میں بھی آپ نے متعدد مرتبہ تدریسی خدمات انجام دی ہیں۔ ہندوستان کے علاوہ ایران میں کئی سال سے زہرا اکیڈمی قم میں بھی تدریسی فرائض بحسن و خوبی انجام دے رہے تھے، حقیقت یہ ہے کہ مولانا موصوف درس و تدریس سے ۱۹۸۰ سے ہی وابستہ تھے، بے پناہ صلاحیتوں کے مالک تھے تقریبا چار دہائیاں اس دشت کی سیاحی میں گزر گئیں ، ہر صاحب علم حتی کہ ان کے ہم عمر اور ہم عصر تمام علماء مولانا موصوف کی صلاحیتوں کے معترف ہیں باعتبار مدت تدریس مولانا موصوف نے حوزہ علمیہ امام حسین مظفر نگر میں ذی الحجہ ۱۴۱۰. ۵ سے صفر المظفر ۱۳۱۳ ھ تک تقریباً دو سال تین ماہ تدریسی فرائض بحسن و خوبی انجام دیئے اور مدرسہ باب العلم اور نیل کا لج نوگانواں سادات میں ربیع الاول کا ہی سے جمادی الاول ۱۳۱۹ تک تقریبا دو سال تین ماہ تدریسی فرائض میں منہمک منصرف رہے، مولانا موصوف کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے مولا نا موصوف کی شخصیت کے لئے آخر کار یہ کہنا پڑتا ہے کہ :

 

ملتے ہیں بھلا ایسے کہاں عرش کے تارے

مزید دیکھیں

تبلیغی سرگرمیاں

مولانا وزیر عباس حیدری انتہائی بردبار خلیق ، زندہ دل اور باصلاحیت شخصیت کے مالک تھے آپ عہد طفولیت سے ہی دینی اور مذہبی افعال میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے ، وقت ، عمر اور حالات کے ساتھ ساتھ اس جذ بہ لافانی میں بھی روز افزوں اضافہ ہوتا رہا، ایران جانے کے بعد آپ کی تبلیغی سرگرمیوں میں جو تیزی دیکھنے کوملی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ آپ نے جہاں اپنی مجالس ، تقاریر ، اور وعظ و نصیحت کے ذریعہ تبلیغی سرگرمیوں کو انجام دیا وہیں اپنی تحریروں کے ذریعہ پیغام حق ، مقصد اہلبیت اور علوم قرآن و احادیث کی تبلیغ کی ہے۔ آپ کا انداز بیان انتہائی ساده، زبان سلیس مگر حد درجہ متاثر کرنے والی تھی الفاظ کی چاشنی، زبان کی شیرینی اور انداز گفتگو اتنا خوبصورت تھا کہ سامعین مسحور ہو جاتے تھے ، آپ کو ساز مان فرهنگ و ارتباطالت اسلامی کی جانب سے بھی تبلیغ کے لئے ملک عزیز ہندوستان بھیجا گیا اس تبلیغی سلسلے میں بلند مدت (ایک سال ) از شعبان المعظم ۱۳۱۳ ه تا شعبان المعظم ۱۴۱۵ه با تدریس مدرسہ حوزہ علمیہ امام حسین مظفر نگر یوپی میں خدمات انجام دیں، اس تبلیغی سلسلے میں آپ ملک عزیز ہندوستان کے مختلف اور متعدد علاقوں خطوں اور مقامات کے علاوہ دیگر ممالک جیسے یوروپ، ڈینمارک، ناروے وغیرہ وغیرہ بہت سے دور افتادہ علاقوں اور ملکوں کا سفر کرتے رہتے تھے آپ نے جہاں جہاں تبلیغی خدمات انجام دی ہیں ہر جگہ ہر بستی اور ہر علاقے کے افراد و مومنین آج تک آپ کی قابلیت ولیاقت بحسن خلق ، اور انکساری کے ساتھ ساتھ بلندی کردار کے معترف اور گرویدہ ہیں، اور سازمان فرهنگ و ارتباطالت اسلامی کی جانب آپ مسلسل ماہ شعبان المعظم ، رمضان المبارک محرم و صفر گو یا ایام عزاء میں تبلیغ کے لئے ایران سے ہندوستان آتے رہتے تھے، اور اپنی تبلیغی ذمہ داریوں کو بحسن وخوبی پایہ تکمیل تک پہونچاتے تھے، ہندوستان میں خصوصی طور پر آپ کے حلقہ تبلیغ کا مرکزی مقام سادات باہرہ کو تصور کیا جاتا ہے ، آپ نے اکثر و بیشتر اس علاقہ میں مجالس عزاء ، پیشنمازی، تقاریر اور ایسے بنیادی افعال انجام دیئے ہیں جنھیں اہل حق اور اہل علاقہ بھی فراموش نہیں کر سکتے ، ،خدا آپ کو اس کا اجر جزیل عطا فرمائے۔

مزید دیکھیں

تألیف و تصنیفات

یہ بات ہر ذی شعور پر آشکار ہے اور ہر صاحب فکر ونظر اس سے واقف ہے کہ انسان کی تخلیقات اس کی شخصیت ، فکر اور زندگی کا آئینہ دار ہوتی ہیں ، اگر تخلیقات باقیات الصالحات ہوں تو وہ تخلیقات اپنے خالق کو زندگی میں لا فانی اور بے مثل و بے نظیر حیات عطا کرنے کے ساتھ ساتھ زادراہ آخرت بھی قرار پاتی ہیں، چونکہ انسان خود تو فنا کا شکار ہو جاتا ہے لیکن اس کی تخلیقات مختلف صورتوں میں باقی رہ جاتی ہیں ، جن کے ذریعہ انسان کی ذہنی علمی تحقیقی ، اور تخلیقی صلاحیتوں کے خدو خال رونما اور آشکار ہوتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مولانا موصوف کی سب عظیم ، اہم اور خاص تخلیقات تصانیف ، تالیفات اور تراجم ہیں جو آپ کو تا ابد زندہ و جاوداں رکھیں گے ، اور آپ کی شخصیت کے خدو خال ، آپ کی علمی صلاحیتوں افعال اور کارناموں کی چمک کو بھی مدھم نہیں پڑنے دیں گے۔

آپ نے بہت سی مشہور و معروف کتا میں تحریر فرما کر اپنے لئے زاد راہ ، آخرت اور ذریعہ مغفرت مہیا کر لیا ہے، آپ کی تمام کتب کا تذکرہ کرنا اور اتنی جلدی تلاش کرنا ہمارے لئے ایک دشوار امر تھا لیکن مولانا موصوف کے چھوٹے فرزند جن کا نام مولانا محمد ربیع حیدری تھی ہے جو فی الحال ایران میں مقیم ہیں، ہم نے ان سے گذارش کی ، التماس کی لیکن اس دکھ اور رنج و غم کی کیفیت کے باوجود انھوں نے ہماری نحیف سی آواز کو سنا اور ہماری گذارش کو قبول کرتے ہوئے اس فعل سعید میں ہماری کچھ کمک فرمائی ، جس کی وجہ سے ہم مولانا مرحوم کی چند ایسی کتب کے فی الحال صرف نام قلمبند کر رہے ہیں جو چاپ خانوں

اور نشر و اشاعت کی منزلوں سے گذر کر منظر عام پر آچکی ہیں تفصیلی گفتگو مستقبل میں قلمبند کی جانے والی تحریروں میں پیش کریں گے۔ انشاء اللہ

مولانا موصوف کی تحریر کردہ مطبوعہ اور غیر مطبوعہ کتب میں سے چند کتب کے اسماء مندرجہ ذیل ہیں:

۱) اعتکاف ۔

(۲) امام خمینی" کی زندگی

(۳) تاریخ فدک تحقیق کے آئینہ میں

(۴) خورشید سامراء

(۵) مدینه تامدینه

(۶) ولایت و حکومت

(۷) جہاد بالنفس

(۸) ثامن الائمه

(۹) تنویر اجتہاد

(۱۰) ضیا العلماء

(۱۱) مختصر حالات زندگی (سعید الحلیم ) ۔

(۱۲) امام خمینی کی زندگی کا مختصر جائزہ

(۱۳) کفارات

(۱۴) زناشویی در قبائل

(۱۵) مرات الاحوال

(۱۶) فرقة الناجیه

(۱۷) قرآن اور امام حسین

(۱۸) ۱۵۴۰ار سوالات کے جوابات

(۱۹)، ۱۵۰ / مقالہ حدودا ہے جو میگزین کی صورت میں نشر و چاپ ہوئی ہے،

(2۰) بام و در ( حضرت فاطمہ زہرا کی مظلومیت ) –

(۲۱) خاک ہائے نرم کوشک ، یہ کتاب فارسی سے اردو میں ترجمہ کی گئی ہے جو فی الحال آپ کے فرزندان کی کوششوں محبتوں اور توجہات کی محتاج ہے، کتب کے علاوہ مولانا موصوف کے تحقیقی مضامین اور مقالات بھی آپ کی تخلیقات میں شمولیت ہی نہیں بلکہ ایک بلند مقام رکھتے ہیں بلکہ آپ کے تحقیقی مضامین کو آپ کی تخلیقات کی روح یا اساس قرار دیا جائے تو بے جانہ ہوگا۔

آپ کے تحقیقی مضامین کو صرف آپ کے شاگردوں یا احباب اور ہندوستان ہی نہیں بلکہ پاکستان، ایران ، عراق وغیرہ مختلف ممالک میں قدر کی نظر سے دیکھا اور پڑھا جاتا ہے۔ ہندوستان ، پاکستان، ایران ، عراق وغیرہ کے مشہور و مایہ ناز رسائل کو آپ کے مضامین ہمیشہ زینت بخشتے رہے ہیں۔

آپ نے دین و مذہب ، سماج وسوسائٹی ، تہذیب و تمدن ، ضروریات زندگی ، تربیت اولاد حقوق والدین معرفت الہی و معرفت معصومین علیهم السلام و شهدا و صدیقین ، اور علماء مجتہدین مضاربہ معاشرے کی ضرورت ، تاریخ، سیاست، صحابیت، ولایت ، امامت، رسالت، حکومت، گویا ہر موضوع پر فردا فردا کتب اور تحقیقی مقالات تحریر فرما کر علمی دنیا کو سیراب کرنے اور معاشرے کی اصلاح کرنے کی سعی بلیغ کی ہے نیز ائمہ اطہار اور شہداء وصدیقین کے حیات و خدمات اور ان کی عظمت و منزلت پر فرد فردا مقالات قلمبند کئے ہیں جو یقیناً ہمارے لئے مشعل راہ اور چراغ ضوفشاں کی مانند ہیں ۔ آپ کے مقالات میں جہاں مختصر ترین دو صفحات کے تحقیقی مضامین کو شمولیت حاصل ہے تو وہیں ضرورت تشکیل حکومت دینی، تحقیقی مقالہ جو زبان فارسی میں تحریر کیا گیا ہے۔ جس کو تبتیہ ( امتیاز درجہ 2 ) سے نشر کیا گیا جس کی ضخامت 34 صفحات تک پہونچی ہوئی ہے، وہ صرف تحقیقی مقالہ ہی نہیں بلکہ ایک کتابچہ ہے اور اسی قسم کے بہت سے طویل اور تحقیقی مقالات آپ نے قلمبند کئے ہیں آپ نے اکثر و بیشتر کتب اور مقالات اردو اور فاسی زبان میں تحریر کئے ہیں۔

ہماری اب تک کی گئی کوششوں اور تحقیقات کے مطابق مقالات کے علاوہ مولانا موصوف کی 23 / کتب بشکل ترجمه و تالیف سامنے آسکی ہیں ، جن کی زبان اردو یا فارسی ہے، اصناف نثر کے علاوہ نظم میں آپ کا مجموعہ آمادہ چاپ ہے جس کا نام مولانا موصوف نے "احساس" تجویز کیا تھا، جو بہت جلدی منظر عام پر آکر اپنی عظمت اور افادیت کے جلوے دکھائے گا اور دیگر بہت سی کتب مقالات اشعار گویا نثر و نظم جو ابھی تک ہماری نظروں علم اور تحقیق سے باہر ہیں۔

ہمیں امید قوی ہے کہ آپ کے فرزندان کی کوششوں کے نتیجے میں مولانا موصوف کی غیر مطبوعہ تحریر یں اور کتب بہت جلد منظر عام پر آئیں گی۔ ان شا اللہ

( 23 ) مولانا موصوف کی آخری کتاب رہبران نمونہ اور دینی جمہوریت کو تسلیم کیا گیا ہے یہ کتاب رہبر معظم آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای مدظلہ العالی کے افکار ونظریات پر مشتمل مقالات کا ترجمہ ہے، یہ کتاب بھی مولانا موصوف کی علمی صلاحیتوں اور فکری غمازی کا بہترین نمونہ ہے جس کی زبان سلیس با مہاور ہ اور عام فہم ہے، ترجمہ کرنے کے بعد مولانا موصوف نے مذکورہ کتاب تھی اور تنظیم و ترتیب کے سلسلے میں مولانا مظاہر حسین صاحب قبلہ مدظلہ العالی مدرس و مسئول حوزہ علمیہ امام حسین مظفرنگر کے سپرد کی تھی مولانا مظاہر حسین صاحب قبلہ نے بتایا ہے کہ مذکورہ کتاب مولانا مرحوم کے انتقال سے ایک ہفتہ قبل تصحیح وترتیب کے منازل سے گذر کر پایہ تکمیل کو پہونچی ہے اور اس کتاب کا نام رہبران نمونہ اور دینی جمہوریت تجویز کیا گیا ہے ہم دعا گو ہیں کہ خدا وند عالم مولانا موصوف کی تمام مطبوعہ اور غیر مطبوعہ کتب اور سعی بلیغہ کو باقیات الصالحات قرار دے، آمین یا رب العالمین۔

 

آپ کی شہرت و مقبولیت :

مولانا وزیر عباس حیدری تنہائی پسند، گوشہ گیر، خاموش مزاج اور خاموش طبیعت کے مالک تھے ، مطالعہ کرنا تصنیف و تالیف میں مصروف رہنا، ترجمہ نگاری میں وقت گزاری کو محبوب رکھتے تھے۔

مولانا موصوف کی علمی صلاحیت ، قابلیت و لیاقت کسی صاحب نظر سے مخفی نہ تھی اس کے باوجود ان کی تصنیف "باغ فدک " ( تاریخ کے آئینہ) نے علمی حلقوں میں جو شہرت و مقبولیت حاصل کی اس سے ان کی شخصیت کے خدو خال قدرنمایاں ہو گئے ، اور کوئی بھی صاحب قلم ان کی تصنیفی اور تالیفی صلاحیتوں کا اعتراف کئے بغیر نہ رہ سکا، ساتھ ہی موصوف کی تالیفات و تراجم نے بھی موصوف کی گوشہ گیر شخصیت کے جملہ خد و خال کو تشتت از بام کر دیا۔ آج ہر صاحب فکر وفن ، ماہر علم وادب مصنف ومؤلف ، خطیب و مبلغ ، شاعر وادیب محقق و صحافی، نقادگو یا ہر بشر مولانا موصوف کی شخصیت کا گرویدہ نظر آتا ہے۔ آپ کی تالیف ”مدینہ تا مدینہ، جس کو آپ نے بزبان اردو تحریر فرمایا ہے، ولایت پبلیکشنز دہلی کی جانب سے چاپ ونشر ہوئی ہے، یہ کتاب 331 صفحات پر مشتمل ہے جو ایک بہترین شاہ کار تسلیم کی جا چکی ہے ، یہ کتاب سب سے پہلے ۲۰۱۳ میں چاپ اور شائع ہوئی تھی اور ۲۰۱۴ سے ۲۰۲۰ کے درمیان صرف اور صرف ۶ سال کی تقصیر مدت کے درمیان اب تک چار مرتبہ چھپ چکی ہے ، آپ کی دوسری تالیف " تاریخ فدک تحقیق کے آئینہ میں ، بھی شہرۂ آفاق اور آپ کی تحقیقی صلاحیتوں کا بہترین شاہکار ہے یہ کتاب بھی اردو زبان میں تالیف کی گئی ہے جو 431 صفحات پر مشتمل ہے یہ کتاب مرکز جہانی علوم اسلام کی جانب سے ۱۳۱۳ھ میں پہلی مرتبہ شائع ہوئی اور اس درجہ مقبول اور مشہور عام ہوئی کہ کتاب کے ساتھ ساتھ مؤلف کتاب کی تحقیقی صلاحیتوں ، تالیفی اور تصنیفی قابلیتوں اور علم و ہنر کے چرچے زبان زدعوام ہو گئے ، علما، فقہاء، محقیقین ، مولفین ،مصنفین ، تاریخ نویس گویا ہر طبقے نے آپ کی قابلیت کا اعتراف اور اقرار کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے کتاب کے تمام نسخے ختم ہو گئے اور کتاب کی ضرورت شدت سے محسوس کی جانے لگی اسی ضرورت اور مانگ کو دیکھتے ہوئے المصطفے انٹر نیشنل یونیورسٹی تم نے اس کتاب کو دوبارہ شائع کیا ، اس کے علاوہ عباس بک ایجنسی لکھنو ، ادارہ تعلیم و تربیت لاہور موسسه امام المنتظر شعبہ تم ابوطالب سوسائٹی الہند ، ادارۂ اصلاح لکھنو ، جامعتہ المصطفی العالمیہ قم ،زہرا اکادمی (شعبۂ ایران) غدیری مشن ، اسلامی مشن ، بقیہ اللہ مدینۃ العلم، پیام غدیر حجتیہ ، الامیر پاکستان وغیرہ وغیرہ جیسے متعدد، مشہور و معروف اداروں ، رسالہ جات تبلیغی مراکز ، اور یو نیورسٹیز سے مولانا موصوف کے تحقیقی مضامین ، تالیفات و تصنیفات اور تراجم شائع ہوتے رہے ہیں۔ مولا نا موصوف کی تصنیفات و تالیفات کے علاوہ ۴۰ سے زیادہ تحقیقی مضامین ایسے ہیں جو نا چیز کی نظر سے گذر چکے ہیں ، جو مولانا موصوف کی صلاحیتوں اور کارکردگیوں کا بہ بانگ دہل اعلان کر رہے۔

ہم دعا گو ہیں کہ خدائے دو جہاں ، خالق حقیقی آپ کی جملہ کوششوں اور خدمات کو قبول فرمائے اور آپ کی قلمی کاوشوں کو باقیات الصالحات قرار دے۔ الہی آمین

 

آپ کی یادگاریں:

جو اس دنیا میں آیا ہے اس کو بہر حال موت سے ہمکنار ہونا ہی ہے لیکن فرق اتنا ہے کہ بعض افراد ظاہراً کھاتے ، پیتے ہوتے ، جاگتے، ہنتے ، بولتے ہوئے بھی اموات کی صفوں میں صف آرا نظر آتے ہیں تو بعض دیگر موت کی آغوش میں ابدی نیند سو جانے کے بعد بھی زندہ و جاوید ہو جاتے ہیں ، اس کی سب سے اہم اور خاص وجہ ہے انسان کا کردار، اس کے افعال حسنہ، اعمال صالحہ اور اس کے باقیات، متروکات ، اور یادگاریں۔ مولانا وزیر عباس حیدری کیوں تو بہت سی یادگاریں اور ایسے زرین نقوش چھوڑ کر گئے ہیں جو نقش کا لحجر بن کرتا ابد خود بھی باقی رہیں گے اور مولانا موصوف کو بھی باقی رکھیں گے ،جس میں آپ کی تصانیف و تالیفات ، تراجم اور مضامین کے علاوہ سب سے اہم مسئولیت و تاسیس موسسه محضرت ابوطالب مشن سوسائٹی گڑھی مجھڑ ہ سادات ہے جس سے تادم بقا علم و ہنر ، تہذیب و تمدن تبلیغ علوم اہلبیت اور فروغ تعلیمات اسلامی کی تابناک شعائیں نکلتی رہیں گی اور گذرتے اوقات کے ساتھ مزید روشن و منور ہوتی رہیں گی ، اس سوسائٹی کی بنیا د مولانا موصوف کی سعی بلیغ اور دینی ہمدردی و بیداری کا بین ثبوت ہے، اس کی بنیاد ا ار ذیقعدہ ۳۱۳ ا ھ میں ولادت با سعادت حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے پر مسرت موقع پر رکھی گئی تھی ، اس وقت سے لیکر آج تک یہ سوسائٹی علمی تحقیقی اور فرہنگی امور میں مصروف و منہمک ہے، 

مزید دیکھیں

شاعری

آپ کی شاعری شعر و شاعری سے انسان اور انسانیت کا چولی دامن کا ساتھ ہے ابوالبشر حضرت آدم کے زمانہ میں ہی شعر و شاعری کی اساس قائم ہو چکی تھی اور خود بنی خدا، رہبر اول، نبی مکرم نے اپنے ایک مرشیہ سے شعر گوئی کا آغاز فرمایا تھا، شاید یہی سبب ہے جس کی وجہ سے نثر پر نظم کو روز اول سے ہی فوقیت حاصل رہی ہے ، شعر و شاعری کو دیگر اصناف سخن کے مقابلے ہر دل عزیز تصور و تسلیم کیا جاتا ہے، اور شاعری کا جادو ہمیشہ سر چڑھ کر بولتا ہے مولا نا وزیر عباس حیدری ابتدائے حیات سے ہی شعر و شاعری سے علاقہ رکھتے تھے اور تادم مرگ اس شگفتہ جذبہ سے وابستہ بھی رہے، بیسویں صدی عیسوی کے آغاز تک صرف اکتساب فن کافی نہیں تھا بلکہ زبان و بیان کے اسرار و رموز سے واقفیت حاصل کرنے کے لئے کسی ماہر فن اور باصلاحیت استاد کے سامنے زانوئے تلمذ طے کرنا بھی لازم اور ضروری سمجھا جاتا تھا کیونکہ فن اکتسابی ھی کا نام ہے جو دوہی یا عطائی نہیں ہے اس کے برعکس دور حاضر میں لوگ بدون حصول فن ، شاعری میں زور آزمائی کرتے ہیں ، شعر کہتے ہیں اور خود کوشاعر سمجھنے لگتے ہیں جو ان کی خوش فہمی اور کم علمی کا غماز ہے، مولانا وزیر عباس حیدری ایک ایسے باصلاحیت ، پخته کار ، ماہرفن علم قافیہ ، اصناف نظم ونثر ، اصناف شعر علم بلاغت علم بدیع، صنائع بدائع گو ہنٹر کی مانند ظم کی جملہ اصناف پر خاصی دسترس رکھتے تھے ،غزل ہمستزاد قصیده، قطعه، رباعی، نوحه، نعت ، منقبت، اسلام، مسمط وغیرہ وغیرہ گو یا تقریبا جملہ اصناف نظم پر دسترس رکھتے۔ مولانا موصوف کی شاعری روز اول سے ہی وسیع امکانات کی نشان دہی کرتی رہی ہے ، اور ہمیشہ حلقہ اہل فن میں مولانا موصوف اپنی فنی اور شعری قدر و قیمت کا اعتراف کراتے رہے ہیں۔ مولانا کی ذات والا صفات میں مطالعہ کی وسعت ہمیق مشاہدات کی جھلک ،صداقت آمیز تجربات کی عکاسی موجود تھی گویا موصوف کی شاعری میں ان کی بصارت اور بصیرت کی مکمل تصاویر موجود تھیں، جو آج بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔

آپ کا مجموعہ کلام " احساس ،، آماده چاپ ہے اور ان شا اللہ بہت جلدی منظر عام پر آجائے گا جس سے تشنگان علوم وفنون مکمل استفادہ کریں گے، آپ کے اشعار میں قوم وملت کی زبوں حالی ، دین و مذہب سے دور ، دولت اور جھوٹی شہرت کی خواہش رکھنے والا اور ریا کاری کرنے والے افراد کو سخت زجر و توبیخ اور تلخ نصیحتیں کی گئی ہیں، آپ کے اشعار میں آپ کی دلی کیفیت کی مکمل تصویر نظر آتی ہے، زندگی کی جدو جہد ، دوڑ دھوپ کے درمیان جس طرح آپ علم و معارف کے میدان میں مسلسل ارتقائی سفر طے کر رہے تھے آپ کی شاعری بھی ترقی و ارتقاء کی منزلیں طے کرتی ہوئی مسلسل آگے بڑھ رہی تھی ، آپ کی شاعری کے ذریعہ بھی آپ کی علمی صلاحیتوں ، فکری بلندیوں ، عمیق مطالعہ، فلسفہ حیات ، سیاست مدن ، متعلقات زندگی آپ کے احساسات ، خیالات، افکار وتخیلات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ تشبیہات ، استعارات تلمیح حسن تعلیل، کنایه، مجاز مرسل ، تجاہل عارفانه منظر نگاری جیسے جملہ صفات آپ کی شاعری کا جز ولا نٹیفک ہیں۔ المختصر آپ ایک بلند پایہ خطیب، اعلیٰ درجے کے قلم کار، اور ایک بہترین نباض عصر شاعر تھے، یقینا آپ کا کلام آنے والی نسلوں کے لئے مشعل راہ اور شمع ضوفشاں ثابت ہوگا۔ جس سے آنے والی نسلیں استفادہ کرتی رہیں گی۔ انشا اللہ ۔

مزید دیکھیں

اولاد

مولانا وزیر عباس حیدری کے بعد امیر قوی ہے کہ مولانا مرحوم کے فرزند ارجمت عزیزی مولانا میثم حیدری اور عزیز می مولانامحمد ربیع حیدری تھی اس سوسائٹی ہی نہیں بلکہ مولانا موصوف کے جملہ افعال و اقدامات کو ترقی وارتقا کی جانب لے جاتے ہوئے پایہ تکمیل تک پہونچائیں گے اور تمام ادھورے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کریں گے۔ انشاء اللہ مسئولیت و ترتیب کا مجلہ بقیۃ اللہ ع مذکورہ مجلہ بھی مولانا موصوف کی فعالیت، زندہ دلی فکری غوامز، جہد مسلسل اور سی بلیغ کا غماز ہے،مولا نا مرحوم کی یادگاروں کی بقا اور ترقی اب آپ کے فرزندار جمند کی فعالیت اور توجہات پر موقوف ہے۔

مزید دیکھیں

آپ کی خصوصیات

دور حاضر اور انٹرنیٹ :

مولانا موصوف ابتدائے حیات سے ہی نہایت فعال مجتہد ذہین اور مصصم ارادوں کے انسان تھے ، وہ مسلسل محنت کرنا ، اپنے کام کو جلد از جلد اور بہتر طریقہ سے پایہ تکمیل تک پہونچانے کے لئے مضطرب رہتے تھے ، جب تک کام مکمل نہ ہو جائے آپ سکون سے نہیں بیٹھتے تھے۔ اور ایک خاص بات یہ تھی کہ آپ ہمیشہ کچھ نہ کچھ نیا کرنے کی کوشش و جستجو میں لگے رہتے تھے اس جستجو اور کوشش کے نتیجے میں مولانا موصوف نے احکام و ثقافت ،، نامی سائٹ قائم کی جو چار زبانوں پر مشتمل تھی ، اور دسیوں سال چاروں زبانوں میں کارکردگی بخوبی انجام دیتی رہی لیکن تبلیغی تصنیفی ،تالیفی اور خصوصا ترجمہ نگاری جیسی اہم مصروفیات کے پیش نظر اور زیادہ تر اردوزبان جاننے والے افراد کی فرمائش پوری کرنے کی وجہ سے فی الحال اس سائٹ کو اردو زبان سے مخصوص کر دیا گیا ہے، اور یہ اردو زبان جاننے والے افراد کے لئے نہایت مفید اور کارآمد ثابت ہوئی ہے۔ خصوصاً علماء ومبلغین حضرات کے لئے جو اپنا بیشتر وقت سفر میں گزارتے ہیں اور جابجا قدم بقدم جدید مسائل و حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، بدلتے سماج اور سوسائٹی میں نئے نئے اور طرح طرح کے سوالات سامنے آتے ہیں مذکورہ تمام باتوں کے مدنظر فقہا اور مجتہدین کی توضیح المسائل ، مناسک حج ، و دیگر علمی و فقہی کتابوں اور مقالات کو اس میں شامل کیا گیا ہے تا کہ اس سائٹ کا استعمال کر کے ہمارے مبلغین اپنی زندگی میں پیش آنے والے مسائل کو بآسانی حل کر سکیں ۔ لیکن ہمیں امید قوی ہے کہ مولانا مرحوم کے فرزند اور جانشین عزیزی مولا نا میثم حیدری تھی اور عزیزی محمد ربیع حیدری تھی جلد ہی احکام و ثقافت نامی سائٹ کو چاروں زبانیں جانے والوں کے لئے مفید اور کارآمد بنائیں گے، اور شرعی مسائل کو تمام زبانوں میں مذکورہ سائٹ کا حصہ قرار دے کر والد مرحوم کی روح پر فتوح کو شاد فر مائیں گے۔ ان شاء اللہ

 

آپ کی تعمیرات :

مولانا موصوف نے دیگر افراد کی طرح دوسرے علماء کی مانند خود کو صرف پیشنمازی یا فقط منبر ومحراب تک ہی محدود ہی نہیں رکھا بلکہ وقت کے تقاضہ ضروریات اور تناسب حالات کو مد نظر رکھ کر ہر میدان میں اپنی فعالیت ، کار کردگی اور موجودگی کا بخوبی احساس کرایا ہے اور قابل قدر اقدامات کئے ہیں ، تدریس ، تبلیغ، تالیف ،تصنیف، شعر و شاعری جیسے شگفتہ جذبات کے علاوہ آپسی ہمدردی ، اخوت، بھائی چارہ پیکجہتی ، ایک دوسرے کی خبر گیری جیسے جملہ صفات آپ کی شخصیت میں بیک وقت دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ سماج سوسائٹی ، معاشرہ اور کمیونٹی گویا ہر طبقہ کی ضروریات پر آپ کی گہری نظر رہتی تھی ، اور وقتا فوقتا ان ضروریات کو پورا بھی کرتے تھے، اس کی ایک جیتی جاگتی مثال آپ کی تعمیرات کو تسلیم کیا جاسکتا ہے، جن میں موسسہ حضرت ابو طالب مشن گڑھی مجھیر ہ سادات، دوسرا تعمیر نومسجد امام علی رضا کی تھوڑہ سادات ضلع مظفر نگر ہے اور تیسری تعمیر نو جعفر یہ شیعہ جامع مسجد گڑھی مجھیڑہ سادات، اور قم المقدس ایران میں ذاتی رہائش گاہ کی تعمیر وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ یقینا آپ کی تصنیفات و تالیفات و تراجم کی مانند آپ کی تعمیرات بھی زندگی کے اہم کارناموں میں شامل ہیں ، جو آپ کو کبھی نابود وفراموش نہیں ہونے دیں گی۔ اور ہم مکمل وثوق اور اعتماد کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ آپ کی تعمیرات بھی باقیات الصالحات کا ایک اہم اور جزولاینفک ہیں، جن کو احسان شناس اور زندہ دل افراد بھی فراموش نہیں کر سکتے۔

 

چند دیگر صفات :

دنیا میں لاتعداد مخلوقات متولد ہوتی ہیں اور مرجاتی ہیں حتی کہ اشرف المخلوقات حضرت انسان کی بھی یہی کیفیت ہے لیکن انھیں مخلوقات کے درمیان کچھ افراد ایسے بھی پیدا ہوئے ہیں جو اپنے علم وعمل ، افعال اور کارناموں، زہد اور تقوی، ایثار وقربانی جیسے اعلیٰ صفات کی وجہ سے تاریخ عالم اور قلوب عوام الناس پر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھا جاتے ہیں، کسی محقق نے کتنی عمدہ اور حقیقت پر مبنی بات کہی ہے کہ کسی زندگی کی عظمت صرف اس بات پر منحصر نہیں ہے کہ اس میں شاندار فتوحات اور کارنامے ہوں یا اس میں غیر معمولی ایثار اور قربانیوں کے واقعات ہوں ، بیشک یہ بھی ایک معیار ہے لیکن اس کا ایک اور رخ بھی ہے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اس نے دنیا کے اطمینان اور راحت میں کتنا اضافہ کیا، مولانا وزیر عباس حیدری وہ عظیم علمبردار ہیں جنھوں نے اپنی تبلیغی سرگرمیوں ، وعظ ونصائح اور اپنی قلمی کاوشوں کے ذریعہ خالق حقیقی کی اس وسیع کائنات میں اطمینان بخش اور بے بہا جواہرات علمی کا اضافہ کیا ہے ، اور عاشقان اہلبیت اطہار اور موالیان حیدر کرار کی تسلی اور تشفی کی خاطر وہ بیش قیمتی گوہر نایاب بشکل تحریر پیش کئے ہیں جن کی تشنگان علوم کو سخت جستجو تھی اور عرصہ دراز سے جن کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی ۔

مولانا موصوف نے قوم و مذہب کے تعلیمی معیار کو بلند کرنے ، مسائل شرعیہ سے واقفیت حاصل کرنے کے لئے احکام وثقافت نامی سائٹ قائم کی تصنیف و تالیف کی دنیا میں قدم رکھا، ترجمہ نگاری جیسے مشکل کام کو اپنا فریضہ سمجھ کردینی مذہبی وفقہی کتب کو عربی اور فارسی سے ترجمہ کر کے اردو زبان میں منتقل کیا تا کہ ان کو مفید عام بنایا جا سکے ، ظاہر ہے کہ یہ کام کوئی آسان نہ تھا اس فعل کو وہی انجام دیتا ہے (یادے سکتا ہے) جس کو توفیق الہی اور تائید غیبی حاصل ہو لیکن مولانا وزیر عباس حیدری نے اپنی تمام ذمہ داریوں اور فرائض کو اس کم عمری میں بھی جس حسن خوبی کے ساتھ ارتقا اور بلندیوں تک پہونچا یاوہ اپنی مثال آپ ہے مولانا موصوف کے جذبہ ایمانی ، بے لوث خدمات ، دیانتداری و ایمانداری اور جہد مسلسل کو دیکھتے ہوئے حوزہ علمیہ امام حسین مظفر نگر یوپی کے شعبہ تم کا آپ کو مسئول منتخب کیا گیا اور آپ نے سن ۱۴۰۹ھ سے سن ۱۳۱۴ ھ تک تقریبا مسلسل پانچ سال اپنی اس عظیم ذمہ داری کو بحسن و خوبی انجام دیا۔ بہت مشہور بات ہے کہ جب نیت خالص ہوتی تو خدا بھی کوششوں میں برکت عطا کرتا ہے۔ گو یا اگر ہم یہ کہیں تو بے جانہ ہوگا کہ مولانا موصوف اپنی مکمل حیات درخشاں میں بلند مقاصد، عوامی سرگرمیوں ،معاشرتی اصلاح اور بے لوث اخلاص و عمل میں منہمک رہے جس کے سبب سماجی اور مذہبی حلقوں میں عظیم الشان کامرانی سے ہمکنار ہوئے ، ہماری تحریریں ان حیات بخش مقاصد کی تائید و توثیق کرتی ہیں، نیز یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ موصوف ابتدائے حیات سے زندگی کے بالکل آخری لمحات تک علمی دنیا سے وابستہ رہے۔

۱۹۷۵ میں درجہ پنجم پاس کرنے کے بعد سے ۱۵ مئی ۲۰۲۱ تک گویا تقریبا مسلسل تینتیس برس سے اور اگر درجہ اول سے شمار کریں تو تقریباً چار دہائیوں سے تعلیم تعلم جیسی عبادت سے مربوط اور وابستہ تھے تمام دولتیں فنا پزیر ہوجاتی ہیں لیکن علم اور کردار کی دولت ایسی ہے جس کو فنا کا خدشہ نہیں، مطالعہ تحقیق ، متانت سنجیدگی ، محبت ، خلوص، جمیت تبلیغ ، وعظ ونصائح حق گوئی حق نویسی ، انصاف پسندی ، خوش مزاجی ، تواضع ، انکساری، رواداری ، قدر دانی، جو ہر شناسی ، تصنیف ، تالیف، شاعری، تر جمہ نگاری، اور دیگر قلمی خدمات مولانا موصوف کی حیات طیبہ کے چندا سے منتخب اور چند ہ صفات ہیں جنھیں صاحبان نظر ، اہل فکر وفن اور حق شناس افراد کبھی فراموش نہیں کر سکتے ۔

مولانا موصوف نے ۳ ر رمضان المبارک ۱۳۴۲ ھ بمطابق ۱۶ / اپریل ۲۰۲۱ میں ایران سے ہندوستان مراجعت فرمائی اور لوک ڈاؤن ہونے کی وجہ سے آپ دہلی سے اپنے وطن گڑھی مجھیڑہ سادات نہ جا سکے بلکہ مجبوراً اپنے فرزند اکبر عزیزی مولانا محم میثم حیدری تھی جو ایرانی کلچر ہاؤس دہلی میں مصروف خدمات ہیں، جن کی رہائش گاہ اوکھلانئی دہلی میں واقع ہے وہیں پر قیام پزیر ہو گئے لیکن آپ کا دل وطن کی سرزمین پر قدم رنجاں ہونے کے لئے بہت مضطرب تھا اسی پس و پیش میں وہ منحوس گھڑی بھی آگئی جس نے ہم سے ہمارا ایک بیش قیمتی سرمایہ چھین لیا۔

مزید دیکھیں

وفات

آپ ۲۲ / رمضان المبارک ۱۴۳۲ ھ بمطابق درستی ۲۲ میں دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے تمام دوست واحباب عزیز واقر با اور شاگردوں کو روتا بلکتا چھوڑ کر معبود حقیقی سے جاملے، مرحوم ایسے مقدس اور محترم عالم باعمل اور شجرہ بار آور تھے جن کی رحلت سے علمی اور ادبی دنیا میں تاریکیاں اور اداسیاں وقوع پزیر ہو گئیں۔

آپ کی میت دہلی سے آپ کے وطن گڑھی مجھیرہ ہو سادات لائی گئی، پورے وطن میں ایک قیامت کا سماں ، رنج و غم کا ماحول تھا، ہر طرف سے آہ و بکا اور گریہ وزاری کی صدائیں بلند ہو رہی تھیں ، مرد وخواتین کیا چھوٹے کیا بڑے اپنے اور پرائے سب آپ کے غم میں سروسینہ پیٹ رہے تھے، وطن کے تمام طلاب اور علماء حضرات نے آپ کی نماز جنازہ میں شرکت کی ، وطن کے علاوہ قرب و جوار کے مومنین اور علماء حضرات کی خاصی تعداد آپ کے جنازے میں اور آپ کی تدفین میں موجود تھی غسل و کفن کے بعد شب میں تقریباً 11:30 آپ کی میت کو تدفین کے لئے قبرستان لے جایا گیا آپ کی نماز جنازہ جناب مولاناسید طلب گار حسین صاحب قبلہ امام جماعت گڑھی مجھیڑ ہ سادات نے پڑھائی ، اور آپ کو گڑھی مجھیڑ ہ سادات میں ہی موجود آپ کے آبائی قبرستان میں سپردخاک کیا گیا۔

اناللہ وانا الیہ راجعون

مزید دیکھیں
تصاویر
مولانا وزیر عباس حیدری
.
مولانا وزیر عباس حیدری
مولانا وزیر عباس حیدری
.
زوم
ڈاؤن لوڈ
شیئر کریں
شخصی
مولانا وزیر عباس حیدری مولانا وزیر عباس حیدری
قبر مطهر
مولانا وزیر عباس حیدری
متعلقہ لنکس
دیگر علما
کامنٹ
اپنا کامنٹ نیچے باکس میں لکھیں
بھیجیں
1 رجسٹرڈ تبصرہ
ali yaqubi
اللہ تعالی مرحوم کی مغفرت فرمائے آمین
6 دن پہلے
نئے اخبار سے جلد مطلع ہونے کے لئے یہاں ممبر بنیں
سینڈ
براہ کرم پہلے اپنا ای میل درج کریں
ایک درست ای میل درج کریں
ای میل رجسٹر کرنے میں خرابی!
آپ کا ای میل پہلے ہی رجسٹر ہو چکا ہے!
آپ کا ای میل کامیابی کے ساتھ محفوظ ہو گیا ہے
ulamaehin.in website logo
ULAMAEHIND
علماۓ ہند ویب سائٹ، جو ادارہ مہدی مشن (MAHDI MISSION) کی فعالیتوں میں سے ایک ہے، علماۓ کرام کی تصاویر اور ویڈیوز کو پیش کرتے ہوۓ، ان حضرات کی خدمات کو متعارف کرواتی ہے۔ نیز، اس سائٹ کا ایک حصہ ہندوستانی مدارس اور کتب خانوں، علماء کی قبور کو متعارف کروانے سے مخصوص ہے۔
Copy Rights 2025