یہ بات ہر ذی شعور پر آشکار ہے اور ہر صاحب فکر ونظر اس سے واقف ہے کہ انسان کی تخلیقات اس کی شخصیت ، فکر اور زندگی کا آئینہ دار ہوتی ہیں ، اگر تخلیقات باقیات الصالحات ہوں تو وہ تخلیقات اپنے خالق کو زندگی میں لا فانی اور بے مثل و بے نظیر حیات عطا کرنے کے ساتھ ساتھ زادراہ آخرت بھی قرار پاتی ہیں، چونکہ انسان خود تو فنا کا شکار ہو جاتا ہے لیکن اس کی تخلیقات مختلف صورتوں میں باقی رہ جاتی ہیں ، جن کے ذریعہ انسان کی ذہنی علمی تحقیقی ، اور تخلیقی صلاحیتوں کے خدو خال رونما اور آشکار ہوتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مولانا موصوف کی سب عظیم ، اہم اور خاص تخلیقات تصانیف ، تالیفات اور تراجم ہیں جو آپ کو تا ابد زندہ و جاوداں رکھیں گے ، اور آپ کی شخصیت کے خدو خال ، آپ کی علمی صلاحیتوں افعال اور کارناموں کی چمک کو بھی مدھم نہیں پڑنے دیں گے۔
آپ نے بہت سی مشہور و معروف کتا میں تحریر فرما کر اپنے لئے زاد راہ ، آخرت اور ذریعہ مغفرت مہیا کر لیا ہے، آپ کی تمام کتب کا تذکرہ کرنا اور اتنی جلدی تلاش کرنا ہمارے لئے ایک دشوار امر تھا لیکن مولانا موصوف کے چھوٹے فرزند جن کا نام مولانا محمد ربیع حیدری تھی ہے جو فی الحال ایران میں مقیم ہیں، ہم نے ان سے گذارش کی ، التماس کی لیکن اس دکھ اور رنج و غم کی کیفیت کے باوجود انھوں نے ہماری نحیف سی آواز کو سنا اور ہماری گذارش کو قبول کرتے ہوئے اس فعل سعید میں ہماری کچھ کمک فرمائی ، جس کی وجہ سے ہم مولانا مرحوم کی چند ایسی کتب کے فی الحال صرف نام قلمبند کر رہے ہیں جو چاپ خانوں
اور نشر و اشاعت کی منزلوں سے گذر کر منظر عام پر آچکی ہیں تفصیلی گفتگو مستقبل میں قلمبند کی جانے والی تحریروں میں پیش کریں گے۔ انشاء اللہ
مولانا موصوف کی تحریر کردہ مطبوعہ اور غیر مطبوعہ کتب میں سے چند کتب کے اسماء مندرجہ ذیل ہیں:
۱) اعتکاف ۔
(۲) امام خمینی" کی زندگی
(۳) تاریخ فدک تحقیق کے آئینہ میں
(۴) خورشید سامراء
(۵) مدینه تامدینه
(۶) ولایت و حکومت
(۷) جہاد بالنفس
(۸) ثامن الائمه
(۹) تنویر اجتہاد
(۱۰) ضیا العلماء
(۱۱) مختصر حالات زندگی (سعید الحلیم ) ۔
(۱۲) امام خمینی کی زندگی کا مختصر جائزہ
(۱۳) کفارات
(۱۴) زناشویی در قبائل
(۱۵) مرات الاحوال
(۱۶) فرقة الناجیه
(۱۷) قرآن اور امام حسین
(۱۸) ۱۵۴۰ار سوالات کے جوابات
(۱۹)، ۱۵۰ / مقالہ حدودا ہے جو میگزین کی صورت میں نشر و چاپ ہوئی ہے،
(2۰) بام و در ( حضرت فاطمہ زہرا کی مظلومیت ) –
(۲۱) خاک ہائے نرم کوشک ، یہ کتاب فارسی سے اردو میں ترجمہ کی گئی ہے جو فی الحال آپ کے فرزندان کی کوششوں محبتوں اور توجہات کی محتاج ہے، کتب کے علاوہ مولانا موصوف کے تحقیقی مضامین اور مقالات بھی آپ کی تخلیقات میں شمولیت ہی نہیں بلکہ ایک بلند مقام رکھتے ہیں بلکہ آپ کے تحقیقی مضامین کو آپ کی تخلیقات کی روح یا اساس قرار دیا جائے تو بے جانہ ہوگا۔
آپ کے تحقیقی مضامین کو صرف آپ کے شاگردوں یا احباب اور ہندوستان ہی نہیں بلکہ پاکستان، ایران ، عراق وغیرہ مختلف ممالک میں قدر کی نظر سے دیکھا اور پڑھا جاتا ہے۔ ہندوستان ، پاکستان، ایران ، عراق وغیرہ کے مشہور و مایہ ناز رسائل کو آپ کے مضامین ہمیشہ زینت بخشتے رہے ہیں۔
آپ نے دین و مذہب ، سماج وسوسائٹی ، تہذیب و تمدن ، ضروریات زندگی ، تربیت اولاد حقوق والدین معرفت الہی و معرفت معصومین علیهم السلام و شهدا و صدیقین ، اور علماء مجتہدین مضاربہ معاشرے کی ضرورت ، تاریخ، سیاست، صحابیت، ولایت ، امامت، رسالت، حکومت، گویا ہر موضوع پر فردا فردا کتب اور تحقیقی مقالات تحریر فرما کر علمی دنیا کو سیراب کرنے اور معاشرے کی اصلاح کرنے کی سعی بلیغ کی ہے نیز ائمہ اطہار اور شہداء وصدیقین کے حیات و خدمات اور ان کی عظمت و منزلت پر فرد فردا مقالات قلمبند کئے ہیں جو یقیناً ہمارے لئے مشعل راہ اور چراغ ضوفشاں کی مانند ہیں ۔ آپ کے مقالات میں جہاں مختصر ترین دو صفحات کے تحقیقی مضامین کو شمولیت حاصل ہے تو وہیں ضرورت تشکیل حکومت دینی، تحقیقی مقالہ جو زبان فارسی میں تحریر کیا گیا ہے۔ جس کو تبتیہ ( امتیاز درجہ 2 ) سے نشر کیا گیا جس کی ضخامت 34 صفحات تک پہونچی ہوئی ہے، وہ صرف تحقیقی مقالہ ہی نہیں بلکہ ایک کتابچہ ہے اور اسی قسم کے بہت سے طویل اور تحقیقی مقالات آپ نے قلمبند کئے ہیں آپ نے اکثر و بیشتر کتب اور مقالات اردو اور فاسی زبان میں تحریر کئے ہیں۔
ہماری اب تک کی گئی کوششوں اور تحقیقات کے مطابق مقالات کے علاوہ مولانا موصوف کی 23 / کتب بشکل ترجمه و تالیف سامنے آسکی ہیں ، جن کی زبان اردو یا فارسی ہے، اصناف نثر کے علاوہ نظم میں آپ کا مجموعہ آمادہ چاپ ہے جس کا نام مولانا موصوف نے "احساس" تجویز کیا تھا، جو بہت جلدی منظر عام پر آکر اپنی عظمت اور افادیت کے جلوے دکھائے گا اور دیگر بہت سی کتب مقالات اشعار گویا نثر و نظم جو ابھی تک ہماری نظروں علم اور تحقیق سے باہر ہیں۔
ہمیں امید قوی ہے کہ آپ کے فرزندان کی کوششوں کے نتیجے میں مولانا موصوف کی غیر مطبوعہ تحریر یں اور کتب بہت جلد منظر عام پر آئیں گی۔ ان شا اللہ
( 23 ) مولانا موصوف کی آخری کتاب رہبران نمونہ اور دینی جمہوریت کو تسلیم کیا گیا ہے یہ کتاب رہبر معظم آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای مدظلہ العالی کے افکار ونظریات پر مشتمل مقالات کا ترجمہ ہے، یہ کتاب بھی مولانا موصوف کی علمی صلاحیتوں اور فکری غمازی کا بہترین نمونہ ہے جس کی زبان سلیس با مہاور ہ اور عام فہم ہے، ترجمہ کرنے کے بعد مولانا موصوف نے مذکورہ کتاب تھی اور تنظیم و ترتیب کے سلسلے میں مولانا مظاہر حسین صاحب قبلہ مدظلہ العالی مدرس و مسئول حوزہ علمیہ امام حسین مظفرنگر کے سپرد کی تھی مولانا مظاہر حسین صاحب قبلہ نے بتایا ہے کہ مذکورہ کتاب مولانا مرحوم کے انتقال سے ایک ہفتہ قبل تصحیح وترتیب کے منازل سے گذر کر پایہ تکمیل کو پہونچی ہے اور اس کتاب کا نام رہبران نمونہ اور دینی جمہوریت تجویز کیا گیا ہے ہم دعا گو ہیں کہ خدا وند عالم مولانا موصوف کی تمام مطبوعہ اور غیر مطبوعہ کتب اور سعی بلیغہ کو باقیات الصالحات قرار دے، آمین یا رب العالمین۔
آپ کی شہرت و مقبولیت :
مولانا وزیر عباس حیدری تنہائی پسند، گوشہ گیر، خاموش مزاج اور خاموش طبیعت کے مالک تھے ، مطالعہ کرنا تصنیف و تالیف میں مصروف رہنا، ترجمہ نگاری میں وقت گزاری کو محبوب رکھتے تھے۔
مولانا موصوف کی علمی صلاحیت ، قابلیت و لیاقت کسی صاحب نظر سے مخفی نہ تھی اس کے باوجود ان کی تصنیف "باغ فدک " ( تاریخ کے آئینہ) نے علمی حلقوں میں جو شہرت و مقبولیت حاصل کی اس سے ان کی شخصیت کے خدو خال قدرنمایاں ہو گئے ، اور کوئی بھی صاحب قلم ان کی تصنیفی اور تالیفی صلاحیتوں کا اعتراف کئے بغیر نہ رہ سکا، ساتھ ہی موصوف کی تالیفات و تراجم نے بھی موصوف کی گوشہ گیر شخصیت کے جملہ خد و خال کو تشتت از بام کر دیا۔ آج ہر صاحب فکر وفن ، ماہر علم وادب مصنف ومؤلف ، خطیب و مبلغ ، شاعر وادیب محقق و صحافی، نقادگو یا ہر بشر مولانا موصوف کی شخصیت کا گرویدہ نظر آتا ہے۔ آپ کی تالیف ”مدینہ تا مدینہ، جس کو آپ نے بزبان اردو تحریر فرمایا ہے، ولایت پبلیکشنز دہلی کی جانب سے چاپ ونشر ہوئی ہے، یہ کتاب 331 صفحات پر مشتمل ہے جو ایک بہترین شاہ کار تسلیم کی جا چکی ہے ، یہ کتاب سب سے پہلے ۲۰۱۳ میں چاپ اور شائع ہوئی تھی اور ۲۰۱۴ سے ۲۰۲۰ کے درمیان صرف اور صرف ۶ سال کی تقصیر مدت کے درمیان اب تک چار مرتبہ چھپ چکی ہے ، آپ کی دوسری تالیف " تاریخ فدک تحقیق کے آئینہ میں ، بھی شہرۂ آفاق اور آپ کی تحقیقی صلاحیتوں کا بہترین شاہکار ہے یہ کتاب بھی اردو زبان میں تالیف کی گئی ہے جو 431 صفحات پر مشتمل ہے یہ کتاب مرکز جہانی علوم اسلام کی جانب سے ۱۳۱۳ھ میں پہلی مرتبہ شائع ہوئی اور اس درجہ مقبول اور مشہور عام ہوئی کہ کتاب کے ساتھ ساتھ مؤلف کتاب کی تحقیقی صلاحیتوں ، تالیفی اور تصنیفی قابلیتوں اور علم و ہنر کے چرچے زبان زدعوام ہو گئے ، علما، فقہاء، محقیقین ، مولفین ،مصنفین ، تاریخ نویس گویا ہر طبقے نے آپ کی قابلیت کا اعتراف اور اقرار کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے کتاب کے تمام نسخے ختم ہو گئے اور کتاب کی ضرورت شدت سے محسوس کی جانے لگی اسی ضرورت اور مانگ کو دیکھتے ہوئے المصطفے انٹر نیشنل یونیورسٹی تم نے اس کتاب کو دوبارہ شائع کیا ، اس کے علاوہ عباس بک ایجنسی لکھنو ، ادارہ تعلیم و تربیت لاہور موسسه امام المنتظر شعبہ تم ابوطالب سوسائٹی الہند ، ادارۂ اصلاح لکھنو ، جامعتہ المصطفی العالمیہ قم ،زہرا اکادمی (شعبۂ ایران) غدیری مشن ، اسلامی مشن ، بقیہ اللہ مدینۃ العلم، پیام غدیر حجتیہ ، الامیر پاکستان وغیرہ وغیرہ جیسے متعدد، مشہور و معروف اداروں ، رسالہ جات تبلیغی مراکز ، اور یو نیورسٹیز سے مولانا موصوف کے تحقیقی مضامین ، تالیفات و تصنیفات اور تراجم شائع ہوتے رہے ہیں۔ مولا نا موصوف کی تصنیفات و تالیفات کے علاوہ ۴۰ سے زیادہ تحقیقی مضامین ایسے ہیں جو نا چیز کی نظر سے گذر چکے ہیں ، جو مولانا موصوف کی صلاحیتوں اور کارکردگیوں کا بہ بانگ دہل اعلان کر رہے۔
ہم دعا گو ہیں کہ خدائے دو جہاں ، خالق حقیقی آپ کی جملہ کوششوں اور خدمات کو قبول فرمائے اور آپ کی قلمی کاوشوں کو باقیات الصالحات قرار دے۔ الہی آمین
آپ کی یادگاریں:
جو اس دنیا میں آیا ہے اس کو بہر حال موت سے ہمکنار ہونا ہی ہے لیکن فرق اتنا ہے کہ بعض افراد ظاہراً کھاتے ، پیتے ہوتے ، جاگتے، ہنتے ، بولتے ہوئے بھی اموات کی صفوں میں صف آرا نظر آتے ہیں تو بعض دیگر موت کی آغوش میں ابدی نیند سو جانے کے بعد بھی زندہ و جاوید ہو جاتے ہیں ، اس کی سب سے اہم اور خاص وجہ ہے انسان کا کردار، اس کے افعال حسنہ، اعمال صالحہ اور اس کے باقیات، متروکات ، اور یادگاریں۔ مولانا وزیر عباس حیدری کیوں تو بہت سی یادگاریں اور ایسے زرین نقوش چھوڑ کر گئے ہیں جو نقش کا لحجر بن کرتا ابد خود بھی باقی رہیں گے اور مولانا موصوف کو بھی باقی رکھیں گے ،جس میں آپ کی تصانیف و تالیفات ، تراجم اور مضامین کے علاوہ سب سے اہم مسئولیت و تاسیس موسسه محضرت ابوطالب مشن سوسائٹی گڑھی مجھڑ ہ سادات ہے جس سے تادم بقا علم و ہنر ، تہذیب و تمدن تبلیغ علوم اہلبیت اور فروغ تعلیمات اسلامی کی تابناک شعائیں نکلتی رہیں گی اور گذرتے اوقات کے ساتھ مزید روشن و منور ہوتی رہیں گی ، اس سوسائٹی کی بنیا د مولانا موصوف کی سعی بلیغ اور دینی ہمدردی و بیداری کا بین ثبوت ہے، اس کی بنیاد ا ار ذیقعدہ ۳۱۳ ا ھ میں ولادت با سعادت حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے پر مسرت موقع پر رکھی گئی تھی ، اس وقت سے لیکر آج تک یہ سوسائٹی علمی تحقیقی اور فرہنگی امور میں مصروف و منہمک ہے،