براہ کرم پہلے مطلوبہ لفظ درج کریں
سرچ
کی طرف سے تلاش کریں :
علماء کا نام
حوزات علمیہ
خبریں
ویڈیو
19 جُمادى الأولى 1446
ulamaehin.in website logo
حضرت آیت الله العظمی سعادت حسین خان ره
حضرت آیت الله العظمی سعادت حسین خان ره

Ayatullah Saadat Hussain Khan

ولادت
21 صفر 1325 ه.ق
سلطانپور
وفات
30 ذی الحجة 1409 ه.ق
لکھنو
والد کا نام : منور حسین خان رہ
تدفین کی جگہ : امہٹ سلطانپور
شیئر کریں
ترمیم
کامنٹ
سوانح حیات
تعلیم
فیض آباد
بابری مسجد
لکھنؤ
تصنیفات
اخلاق حسنہ
اولاد
وفات
تصاویر
متعلقہ لنکس

سوانح حیات

افتخار العلماء مولانا سعادت حسین خان صاحب ابن منور حسین ابن محمد حسین ابن بخشی خان امہٹ ضلع سلطان پور کے مایہ ناز فرزند تھے ۔ آپ نے اپنی تاریخ ولادت خود اپنے قلم سے ٢١  صفر ١٣٢٥ ھ  تحریر فرمائی ہے جو ٥  اپریل ١٩٠٧  ء سے مطابق ہے بچپن کا نام فقیر حسین تھا لیکن جامعہ ناظمیہ میں داخل ہوئے تو سید ہادی حسن صاحب مرحون نے جو علم جفر کے ماہر استاد تھے اسے بدل کر سعادت حسین کر دیا ۔ ( الذریعہ میں تاریخ ولادت حدود ١٣٣٠  ھ درج ہے جو تسامح ہے )

افتخار العلماء مولانا سعادت حسین خان کے جد اعلیٰ بریار سنگھ مسلمان ہو گئے تھے ۔ جس کے بعد ان کا نام بریار خان ہو گیا ۔ آپ کی مسلم اولادیں سلطان پور اور پرتاب گڑھ میں ہزاروں کی تعداد میں آباد ہیں ۔ مولانا موصوف تحریر فرماتے ہیں :

'' امہٹ میں تشیع ہمارے دادا کے دادا بخشی خان کے سبب آیا اس لئے کہ انھوں نے خود ہی سرور عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خواب میں زیارت کی تھی ۔ مگر جب حضرت کو سلام کیا تو حضرت نے منہ پھیر لیا بخشی خان نے حضرتۖ سے اس کا سبب پوچھا تو آنحضرتۖ نے فرمایا : میں نے اس لئے تمھاری طرف سے منہ پھیر لیا کہ تم ہمارے اہل بیت کو دوست نہیں رکھتے ۔ تو بخشی خان نے عرض کی اب سے ان کو دوست رکھوں گا ۔

ان کے ایک دوست زمینداروں میں سے پڑھے لکھے تھے ۔ ان سے خواب نقل کیا تو انھوں نے خواب کی تعبیر بتائی کہ آپ کو شیعہ ہونے کی ہدایت کی گئی ہے ۔ چنانچہ وہ شیعہ ہو گئے اور ان کے ساتھ کل آبادی شیعہ ہو گئی ''

مزید دیکھیں

تعلیم

افتخار العلماء مولانا سعادت حسین خان کو ان کے چچا بختاور علی خان نے تحصیل علم کا شوق دلایا ۔ آپ اپنی تحصیل علم کا حال خود یوں تحریر فرماتے ہیں :

'' وطن سے لکھنؤ ١٩٢٠  ھ مطابق ١٣٤٠  ھ میں وارد ہوا ،  ١ سرکار ناصر الملة کے یہاں قیام کیا اور انھیں کے زیر سایہ تحصیل علوم کا سلسلہ شروع کیا ۔ جامعہ ناظمیہ میں مقدمات کی تحصیل کی شیعہ عربی کالج و سلطان المدارس میں پڑھتا رہا اور لکھنؤ یونیورسٹی سے فاضل ادب کی سند حاصل کی ۔

لکھنؤ کے مدارس سے فارغ ہونے کے بعد آپ حیدر آباد میں ایک رئیس کے بچوں کے اتالیق مقرر ہو گئے تھے ۔ وہاں ہر طرح کا آرام تھا لیکن آپ کو نجف جا کر علم دین کے اعلیٰ مدارج تک پہنچنا مقصود تھا ۔ آپ کے جذبہ صادق نے ان رئیس کو اس پر مجبور کر دیا کہ وہ آپ کے عراق جانے کا بند و بست کر دیں ۔ آپ اواخر رجب ١٣٥٢  ھ میں نجف گئے ۔

         زمانہ قیام نجف میں آپ نے آقای شیخ ابراہیم رشتی ، آقای شیخ عبد المتین رشتی ، آقای سید حسن بجنوردی اور آقای مرزا محمد باقر زنجانی سے فقہ و اصول کی تعلیم حاصل کی ۔ علم کلام میں آقای سید جواد تبریزی اور عربی ادب میں آقای سید محمد سماوی کے سامنے زانوے ادب تہہ کیا ۔ اصول فقہ میں آپ نے آقای ضیاء الدین عراقی کے درس خارج میں شرکت کی ۔ اور فقہ میں آقائے سید ابو الحسن اصفہانی کے درس خارج میں شریک رہے ۔ جن مجتہدین کرام نے آپ کو اجازات مرحمت فرمائے ان میں سرکار ناصر الملة ، سید عبد الحسین شرف الدین الموسوی ، آقای بزرگ تہرانی شیخ عباس قمی آقای سید ابو الحسن اصفہانی ، شیخ ضیاء الدین عراقی ، آقای سید محمد رضا گلپائگانی ، آقای سید شہاب الدین مرعشی طاب ثراھم اجمعین شامل ہیں ۔ افتخار العلماء نے بھی آقای مرعشی نجفی کو اجازہ دیا تھا ۔  ( خورشید خاور ص  ١٨٢ )

مزید دیکھیں

فیض آباد

وطن واپس آئے تو سرکار ناصر الملة کی فرمائش پر فیض آباد چلے گئے ۔ وہاں وثیقہ عربی کالج کے درہم برہم تعلیمی نظام اور انتظامات کو درست کیا طلباء کی تعداد بڑھائی اور مدرسہ میں دو بارہ زندگی پیدا کی ۔ مدرسہ کی اصلاح کے بعد آپ نے مساجد کی طرف توجہ کی حسن آغا کاظمی سے چوک مسجد کے کاغذات حاصل کئے اور نوعیت سمجھ کر نماز جماعت کے لئے ایک پیش نماز مقرر کر دیا ۔ اس پر ایک طوفان اتھ کھڑا ہو اہنگامہ ہوا مقدمہ چلا لیکن آپ کے پائے استقامت میں لغزش نہ ہوئی ۔

مزید دیکھیں

بابری مسجد

٢٢ دسمبر ١٩٤٨  ء کو ڈسٹکٹ مجسٹریٹ نائر کی سازش سے راتوں رات بابری مسجد میں مورتی رکھ دی گئی سنی ، شیعہ تمام افراد حرکت میں آگئے سب سے زیادہ غم و غصہ کا مظاہرہ افتخار العلماء نے کی حضرات اہل سنت بھی آپ کے ساتھ ہو گئے ۔ ایک جلسہ عام کی بنا ہوئی دیگر مقررین کی پر جوش تقریروں کے بعد افتخار العلماء نے اپنی لکھی ہوئی تقریر پڑھی جس میں مسلمانوں کو قانون کا سہارا لینے کا مشورہ دیا ۔ آخر میں فرمایا : اگر آپ حضرات پرسوں میرے ساتھ چلیں تو خود سعادت حسین مسجد سے مورتی ہٹا دے گا ۔ اس اعلان کی فلک شکاف نعروں سے پذیرائی کی گئی لیکن مقررہ دن کوئی بھی مسلمان وہاں حاضر نہیں ہوا ۔ 

بابری مسجد کے قضئے کی ابتدا ، ٦ دسمبر ١٩٩٢ ء  کی '' انتہا '' سے کتنی ہم آہنگ ہے جس طرح ابتدا میں مسلمان عملی اقدام سے گریزاں رہے اسی طرح ٦  دسمبر ١٩٩٢  ء کو وی پی سنگھ سابق وزیر اعظم تو اجودھیا میں مسجد کی حمایت کے لئے موجود تھے لیکن بابری مسجد کے نام پر پورے ہندوستانی مسلمانوں کو مشتعل کرنے والے مسلم لیڈران میں سے ایک کا بھی پتہ نہ تھا ۔

قیام فیض آباد کے زمانہ میں نواب حسن رضا خان کی مسجد کی واگزاری اور خدام المجالس کی نشاة ثانیہ قابل ذکر ہے ۔ اسی طرح کانپور کے فسادات کے بعد آپ نے گورنمنٹ کی ناراضی پروا کئے بغیر جلسہ عام میں زبر دست تقریر کی ۔ ڈپٹی کمشنیر نے مدرسہ کی گرانٹ بند کر دی ۔ آپ نے لکھنؤ سے دوبارہ گرانٹ جاری کرالی ۔ درمیانی عرصہ میں اساتذہ و طلبہ کو محسوس نہ ہونے دیا کہ گرانٹ رک گئی ہے ۔

مزید دیکھیں

لکھنؤ

بارہ سال تک فیض آباد مین دینی و علمی و قومی خدمات انجام دینے کے بعد ١٩٥٢  ء میں آپ سرکار نصیر الملة کے مشورہ سے لکھنؤ تشریف لائے ۔ اور شیعہ عربی کالج کے پرنسپل کی حیثیت سے آخر زندگی تک خدمات میں مشغول رہے ۔ اس ادراہ میں جامعہ ناظمیہ اور سلطان المدارس کے بہت سے طلباء عماد الادب ، عماد التفسیر اور عماد الکلام کے درجات میں داخلہ لیتے رہتے تھے ۔ اس طرح آپ کے شاگردوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے جن میں سے چند نام یہاں پیش کئے جاتے ہیں ۔

سعید الملة مولانا سید محمد سعید ره

فخر العلماء مرزا محمد عالم ره 

امیر العلماء سید حمید الحسن ( پرنسپل جامعہ ناظمیہ )

مولانا محمد حسین نجفی مرحوم ره

مولانا محمود الحسن خان ره ( پرنسپل مدرسہ ناصریہ جونپور)

مظفر حسین طاہر جرولی مرحوم

مرزا محمد اشفاق ره

مولانا ناظم علی

مرزا محمد اطہر ره

سید ضیا الحسن موسوی ( پاکستان )

مولانا قاضی محمد عسکری 

سید محمد جابر جوراسی ( مدیر مجلہ اصلاح )

مولانا سید ابن حسن نونهروی ره

مولانا سید شبیہ الحسن نونہروی

مولانا سجاد حسین

مولانا محمد زاہد ره

مولانا ابن حسن نجفی 

مولانا علی عباس خان نجفی (امام جمعه کانپور - ممبر آف مسلم پرسنل لا بورڈ انڈیا) 

لکھنؤ میں ہی آپ کی نفیس ترین تصانیف بھی سامنے آئیں ۔ یہاں مختلف اداروں کا انتظام ، دینی و مذہبی اداروں کا اجراء ، محافل و مجالس سے نشر فضائل اہل بیت علیہم السلام ، مساجد میں مواعظ کا اہتمام، اس کے علاوہ شیعی سیاست سے متعلق امور میں دلچسپی آپ کو دم لینے کا موقع نہیں دیتی تھی لیکن انھیں ہنگاموں میں آپ تصنیف و تالیف کا وقت نکال لیتے تھے ۔ ( تصانیف کی فہرست آگے دی جائے گی ) آپ علی گڑھ یونیورسٹی کے شعبہ دینیات کے ممتحن تھے ۔ مدرسہ ناصریہ جونپور کی مجلس انتظام کے صدر تھے شیعہ کالج لکھنؤ کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے ممبر اور شیعہ عربی کالج کے پرنسپل تھے ۔ مدرسہ الواعظین کی مجلس انتظامیہ کا ممبر ہونے کے ساتھ ساتھ رسالہ الواعظین کے مستقل نگراں تھے ۔ مدرسہ الواعظین کے مستقل ممبر بھی تھے ۔ حوزہ علمیہ مظفر نگر کے نگراں بھی تھے ۔ تنظیم المکاتب کے بانیوں میں تھے ۔ اور اس کے پہلے نائب صدر اور دوسرے صدر بھی رہے ۔

مولانا وصی محمد صاحب قبلہ طاب ثراہ کی علالت کے زمانے میں مدرسہ الواعظین میں درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھنے کے لئے آپ اعزازی طور پر تیار ہو گئے ۔ اور اسے ایک مستقل ڈیوٹی کی طرح انجام دیتے رہے ۔ روز انہ پابندی کے ساتھ سات بچے صبح مدرسہ جاتے مدرسہ کے اوقات کے بعد وہاں سے کتب خانہ ناصریہ تشریف لے جاتے تھے اور تحریری مشاغل اور مطالعہ میں مشغول رہتے تھے ۔ وہاں سے تین بجے سہ پہر کو شیعہ کالج تشریف لے جاتے اور چھہ بجے شام کو گھر پہنچتے ۔ اور یہ سب کچھ اس وقت تھا جب آپ کی عمر اسی سال کے قریب پہنچ چکی تھی ۔

سلطان پور کے امام باڑے کی تعمیر ، تالاب ٹکیت رائے کی مسجد کی تعمیر و واگزاری ، منصور نگر کی دو مسجدوں کی تعمیر کے لئے مومنین کی تشجیع آپ انجمن تعمیر مساجد کے بانی اور سر پرست تھے جنت البقیع تال کٹورہ روڈ کی تعمیر میں سرگرمی دکھائی امہٹ میں مکاتب کا قیام اور جامع مسجد کی تعمیر ۔ یہ سب آپ کے قومی و تعمیری خدمات کے گواہ ہیں ۔

مزید دیکھیں

تصنیفات

لکھنؤ کی طالب علمی ہی کے زمانے سے جریدہ '' الصراط '' کی ادارت کے فرائض تقریبا چار سال تک انجام دیئے ۔جناب نصیر الملة کی صدارت میں نادی الادباء کی بنیاد رکھی جس میں مدرسہ ناظمیہ اور مدرسہ سلطانیہ کے فاضل طلاب ہر ہفتہ جمع ہوتے تھے اور عربی میں مقالے پڑھتے تھے ۔ '' الادیب '' کے نام سے ایک ماہوار مجلہ بھی جاری کیا گیا ۔ نجف پہچ کر آقای ابو الحسن اصفہانی کے عملیہ کا اردو ترجمہ کیا ۔ جو نجف ہی میں طبع ہوا ۔ اس کے علاوہ مقتل کی مشہور کتاب '' ابصار العین فی انصار الحسین '' کا ترجمہ کیا ۔

    l          دیگر تصانیف کی فہرست حسب ذیل ہے :

    l          تحقیق حق ( مسئلہ خلافت پر سیر حاصل بحث )

    l          احتجاجات  ( عربی ، پانچ جلدیں نا تمام )

    l          ضیاء العین ( زندگانی علامہ سید حامد حسین )

    l          مصائب الشیعہ 

    l          عصر حاضر اور علامات ظہور ، ترجمہ احقاق الحق ( باب امامت غیر مطبوعہ )

    l          جواہر صدف رسالت

    l          ترجمہ رسالہ حقوق امام زین العابدین 

    l          غیبت ( ترجمہ رسالہ شیخ مفید )

    l          جواز لعن یزید

    l          مناظرہ ہشام بن حکم

    l          اصحاب امیر المومنین  کی قربانیاں ( تین جلدوں )

    l          شہداء اربعہ ،

    l          النجف الاشرف

    l          تعمیر روضہ سید الشہداء ، عظمت شہداء کربلا

    l          دو ناصر

    l          تاریخ کتب خانہ ناصریہ 

    l          حیات النصیر نصیر الحیات 

    l          قول جلیل ( در رد کتاب امام اسماعیل ملا حسین علی )

    l          بو ہرہ مذہب ، حقیقت کے آئینے میں

    l          صدر اسلام کے افریقی مسلمان ( اس کتاب کا انگریزی و سواحلی ترجمہ افریقہ میں شائع ہو چکا ہے )

    l          امام محمد باقر علیہ السلام

    l          امام محمد تقی علیہ السلام

    l          بدعت تراویح

    l          امام منتظر ( ایک سنی عالم کی تصنیف البیان کا ترجمہ )

    l          شہنشاہ حبشہ النجاشی

    l          سرکار ناصر الملة

    l           حالات نصیر الملة

    l          جواب اول تحفہ

    l          جواب باب دوم تحفہ

    l          جواب باپ چہارم تحفہ

    l          جواب باب پنجم تحفہ

    l          جواب باب ششم تحفہ

    l          حالات صاحب تحفہ

    l          جواب باب دہم تحفہ ( زیر ترتیب )

    l          مختصر حالات ائمہ اثنا عشر

    l          محسن اسلام ( حصہ اول )

    l          محسن اسلام ( حصہ دوم )

    l           احسن المطالب ( از زبان امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام بمقابلہ شوریٰ)

    l          فضائل ابی تراب عن روایة عمر بن الخطاب

    l          مناقب امیر المومنین از زبان امیر المومنین علیہ السلام

    l          مبغضین حضرت علی

    l          معاویہ و ناصبی حکومتیں مرتبہ ابو جعفر اسکافی

    l          دلائل یقینیہ ترجمہ خلاصہ کتاب العثمانیہ

    l          نماز شب

    l          ترجمہ صادق آل محمد ۖ

    l          گناہان کبیرہ

    l          وہابیین اور ان کا طریقہ کار

    l          ماخذ عبقات الانوار ،

    l          مواعظ مسجد کوفہ

    l          منابیع البلاغہ شیعیت اور اسلام ( شیعوں پر کفر کے فتوی کا جواب )

    l          ترجمہ احقاق الحق ( توحید و نبوت مطبوعہ)

    l          صاحب الامر

    l          کارنامہ تبلیغ ملا علی قاری

مزید دیکھیں

اخلاق حسنہ

افتخار العلماء کی زندگی بڑی سادی اور مرنجان مرنج تھی ، دوسروں کے دکھ کو اپنا دکھ درد بنا لیتے تھے ، دینی طلبہ پر خاص شفقت فرماتے تھے ۔ ان کی لغزشوں کو انتہائی بردباری سے نظر انداز فرماتے تھے ۔ اپنے محسنوں اور بزرگوں کی مذمت برداشت نہیں کرسکتے تھے ۔ فورا شمشیر برہنہ ہو جاتے تھے خاص طور سے اپنے ان اساتذہ سے ان کو بڑی محبت تھی جنھوں نے آپ کی زندگی سنواری تھی ۔ خانگی زندگی مین بھی شفقت و نرمی اور احسان کا برتائو تھا ۔ جس طرح خود دوسروں کے کام آتے تھے اپنے متعلقین کو بھی ایثار کی تعلیم فرماتے تھے ۔ اس سلسلے میں زبان سے زیادہ عمل کو بروئے کار التے تھے ۔ فیض آباد کے مومنین کا بیان ہے کہ جب آپ وثیقہ کے پرنسپل تھے تو طلبہ و مدرسین پر شفقت و ترحم کی ایسی بارش فرامتے تھے اس قدر خیال رکھتے تھے کہ جس طرح خاندان کا بزرگ خیال رکھتا ہے ۔ لیکن یہ شفقت و ترحم کی عادت اصولوں سے متصادم نہیں ہوتی تھی اگر بات اصۖل کی ہوتی تھی تو اپنوں کو بھی نظر اندار کر دیتے تھے ۔ اور تائید حق کے سلسلے میں مخالفین سے بھی ہاتھ ملا لیتے تھے بلکہ ہر ممکن تعاون پر آمادہ ہو جاتے تھے ۔ ان کی نفرت و محبت کا معیار شریعت اور مذہب تھا ۔

مزید دیکھیں

اولاد

آپ کے کوئی اوالد نرینہ نہ تھی ۔ پانچ بیٹیاں ہوئی آپ کے دو داماد مولانا علی عباس صاحب اور مولانا محمد زاہد خان صاحب خدمت دین میں مصروف ہیں ۔ آپ اپنے زندگی کے آخری ایام اپنے خویش صغیر احمد صاحب (آپ  کے دو فرزند عالم دین حوزہ علمیہ قم کے فارغ ہیں) کے ساتھ رستم نگر لکھنؤ میں گزار ے ۔

مزید دیکھیں

وفات

٣٠  ذی الحجہ ١٤٠٩  ھ مطابق ٣  اگست ١٩٨٩  ء شام کے سات بجے کے قریب جب سورج ڈوب رہا تھا اس وقت علم دانش فقہ و دیانت کا یہ آفتاب بھی غروب ہو گیا ۔ یعنی شب یکم محرم الحرام ١٤١٠ ھ کو ۔ دوسرے دن تقریبا نو بچے درگاہ شاہ نجف میں تاج العماء مولانا محمد ذکی صاحب نے نماز جنازہ پڑھائی ۔ ١١  بچے امہٹ کے لئے ی قافلہ روانہ ہوا ۔ وہاں مولانا محمد حسین نجفی صاحب نے نماز جنازہ پڑھائی اور پانچ بجے شام کو آپ کے خاندانی حسینہ کے صحن میں سپرد لحد کیا گیا۔

مزید دیکھیں
تصاویر
8ڈاؤن لوڈز
زوم
ڈاؤن لوڈ
شیئر کریں
سعادت حسین خان سعادت حسین خان
متعلقہ لنکس
دیگر علما
کامنٹ
اپنا کامنٹ نیچے باکس میں لکھیں
بھیجیں
نئے اخبار سے جلد مطلع ہونے کے لئے یہاں ممبر بنیں
سینڈ
براہ کرم پہلے اپنا ای میل درج کریں
ایک درست ای میل درج کریں
ای میل رجسٹر کرنے میں خرابی!
آپ کا ای میل پہلے ہی رجسٹر ہو چکا ہے!
آپ کا ای میل کامیابی کے ساتھ محفوظ ہو گیا ہے
ulamaehin.in website logo
ULAMAEHIND
علماۓ ہند ویب سائٹ، جو ادارہ مہدی مشن (MAHDI MISSION) کی فعالیتوں میں سے ایک ہے، علماۓ کرام کی تصاویر اور ویڈیوز کو پیش کرتے ہوۓ، ان حضرات کی خدمات کو متعارف کرواتی ہے۔ نیز، اس سائٹ کا ایک حصہ ہندوستانی مدارس اور کتب خانوں، علماء کی قبور کو متعارف کروانے سے مخصوص ہے۔
Copy Rights 2024