جناب مولانا سید ابوالحسن صاحب قبلہ عرف جناب ابو صاحب کے فرزند نامور مولانا محمد باقر صاحب کی ولادت 7 صفر ۱۲۸۶ کو ہوئی۔ (عبدالحی کے بقول شب جمعہ 9 صفر کو اور مولانا عالم حسین کے بقول7 صفر ۲۸۵ا ھ یہی تاریخ ماه نامہ الواعظ لکھنو فروری ۱۹۲۸ء میں شائع ہوئی تھی مگر محمد حسین نوگانوی نے مصرعہائے ولادت لکھے ہیں جن سے ۲۸۶ا ھ برآمد ہوتا ہے۔ وہ یہ مصرعے ہیں :
فلک گفت خورشید دین مبیں
گفت تاریخ ولادت مشہدی لکھنوی
ماہ نو طالع بشد بر آسمان اجتہاد
اور یہ تاریخیں جشن ولادت کے موقع پر پیش کی گئی ہیں۔
مولانا سید ابوالحسن صاحب خود بہت بڑے مجتہد ومقدس وصاحب شہرت تھے اور خاندان اجتهاد کے نامور عالم متاز العلما سید محمد تقی صاحب کے خویش تھے۔ اس لئے جناب سید باقر صاحب کی ولادت دو بڑے گھروں کی خوشی کا باعث تھی ۔ مولانا محمد باقر دونوں خاندانوں کے صفات کمال کے حامل ہوئے۔ وہ بچپنے ہی سے مقدس تھے اس لئے کمزور اور علیل رہنے لگے مگر ذہانت ، حافظہ ، شوق طالب علمی ، ذوق کمال نے کمسنی ہی میں بڑے بڑے اساتذہ تک پہنچا دیا۔
مولانا شیخ تفضل حسین تعلقہ دار سے ریاضی ، ہیئت، منطق و فلسفہ پڑھا۔ مولانا سید حیدر صاحب سب سب رجسٹرار لکھنو اور مولانا سید حیدر علی صاحب اور مولانا سید حسین صاحب سے کلام، و ادب و ابتدائی فقه و اصول و درایت و حدیث و تفسیر کا درس لیا۔ پھر اپنے والد علام سے انتهائی کتب کے سبق لئے ۔
1301 ھ میں جناب سید محمد ابراہیم صاحب کی دختر نیک اختر سے عقد ہوا۔
۱۳۰۲ ھ میں اپنے والد علام کے ہمراہ عراق تشریف لے گئے اور وہاں شیخ شریعت فتح الله اصفهانی آیت اللہ محمد کاظم خراسانی – آیت اللہ محمد کاظم یزدی طباطبائی اور الحاج میرزا خلیل طہرانی سرکار علامہ نوری طبرسی و سر کار محمد حسین شہرستانی رحمہم اللہ سے فقہ و اصول میں درس خارج و درس سطحی کی تکمیل کر کے دس سال بعد وطن لوٹے اور اپنے والد کے جانشین ہوئے۔
مولانا محمد باقر صاحب خلق و مروت ، توکل ورضا ،سخاوت و قناعت امانت و احتیاط ، عبادت و زہد ، تقوی اور احتیاط ، سادگی و انکساری میں اپنے والد کی تصویر بلکہ ان سے آگے تھے معمولی خوراک اور پانی ملا کر بدمزہ کرکے کھانا کھانا آپ کی ریاضت تھی ۔ صاف اور اچھا لباس مرغوب تھا۔ آپ کی روحانیت اور پاکیزگی نفس سے ہندومسلمان سب متأثر تھے۔ آپ کے وفا میں زہد و تقوی کی تلقین ہوئی تھی ۔ آپ کی گفتگو میں محبت و الفت کا پیام کسی سے دل میں غبار نہ تھا۔ چھوٹے بڑے کا احترام کرتے تھے کسی نیک بدمیں حریف نہ بنتے تھے۔ گوشہ نشین ہونے کے باوجود دنیا کی رجوع تھی ۔ ہزاروں مسائل روز آتے تھے ۔ گروہ در گروہ طلبا درس لیتے تھے ۔
مدرسہ سلطان المدارس کے صدر و مدرس تھے ۔ لیکن ہر سطح کے جید طلبا مختلف علوم پر بڑی بڑی کتابوں کا درس لیتے تھے۔ باوجود بزرگی و استادی کے طلبا کا احترام فرماتے اور ان کی تعظیم کو کھڑے ہوتے تھے ۔ مدرسے کے طلبا پر باپ سے زیادہ شفیق تھے۔ آپ کے عہد نے مدرسہ سلطان المدارس کے طلبا میں عزت نفس، بے غرضی خلوص اور محبت علم کی روح پھونک دی تھی۔ لوگ آپ کو سلمان و ابوذر سمجھتے تھے صادق القول شیریں زبان فقیہ و اصولی ، محدث و رجالی ، منطق و ہیئت وفلسفہ میں ماہر ہونے کے باوجود عربی نظم و نثر پر غیر معمولی قدرت رکھتے تھے ۔
آپ نے مدرسہ سلطان المدارس میں عربی شعرا کی ایک نسل پیدا کی ۔ مدرسے کے مقاصدوں میں جو عربی فارسی قصیدے پڑھے گئے وہ تاریخ ادب کا قیمتی سرمایہ ہیں ۔ آپ کے عظیم شاگردوں کی فہرست طولانی ہے۔ لیکن جناب شمس العلما مولانا سبط حسن صاحب، جناب ادیب العلما مولانا سید عالم حسین جناب سید العلما مولانا سید شبیر حسن صاحب کی عربی میں مہارت مشہور ہے ۔ یہ حضرات زہد و ورع میں بھی اپنے استاد کی مثال تھے ۔ رحمهم اللہ
جناب سید باقر صاحب نے اپنے عہد میں بچپنے سے آخری عمر تک یکساں عزت سے زندگی بسر کی۔ علما اور معاصراکابر شیعہ و سنی ، قریب اور دور کے سب حضرات آپ سے محبت کرتے اور احترام سے پیش آتے رہے ۔ بر صغیر کے علاو ہ افریقہ ، یورپ تک آپ کے مقلد پھیلے ہوئے تھے۔
آپ کو امام حسین علیہ السلام اور کربلا سے ایک خاص عشق تھا ۔ متعدد مرتبہ زیارت سے مشرف ہوئے اور جب 1346 ھ میں آخری سفر تو یوں کیا جیسے خاص طور پر طلب کا حکم آیا ہو چونکہ تکلف سے دور اور شہرت سے نفور تھے اس لئے خاموشی سے آماده سفر ہوئے لیکن جسے جسے معلوم ہوتا گیا وہ دوڑا مجھے ان کے ایک رفیق سفر نے بتایا کہ جناب کے کرامات اور جذب وخلوص کے جو حالات میں نے سفر میں دیکھے ان سے معلوم ہوا کہ لکھنو میں ان کے بارے میں جو واقعات مشہور ہیں وہ یکے از هزار ہیں۔ جہاز میں بھی آپ کے اخلاق ، عبارت زہد اور غیبی امداد کا وہی عالم رہا ۔ کربلا ئے معلی میں آپ گوشت نوش نہ فرماتے تھے ۔ عموما روتے رہتے تھے۔
کربلا میں آپ کا مکان ہے۔ وہیں 16 شعبان ۱۳۴۶ ھ بروز پنجشنبہ 10 بجے صبح کو نمونیے میں رحلت فرمائی اور کربلا حرم امام حسین علیہ السلام میں دفن ہوئے، جو آپ کی دیرینہ تمنا تھی ۔ کهرام بپا کردیا ۔ تمام اخبارات و رسائل اور تمام اقوام وملل نے آپ کی رحلت پر تعزیت کا اظہار کیا۔ بے شمار مرثیے لکھے گئے اور متعدد خصوصی اجتماعات و مجالس ہوئے۔ مرثیوں میں سے چند عربی مرثیے ، اسدا ء الرغاب کے آخر میں چھپ چکے ہیں مثلا جناب مولانا عالم حسین صاحب کا قطعہ تھا ۔
قد اصبح اليوم هندکربلا كمدا
فرات علم ببردالموت اذجمدا
اولاد
مولانا سید محمد صاحب مرحوم صدر مدرسہ سلطان المدارس لکھنو
مولانا الاستاذ سید علی صاحب
مولوی سید رضی صاحب مرحوم
تلامذہ
تلامذہ کی تعداد بہت زیادہ ہے ۔ مختصر یہ ہے کہ طبقه اول کے صدر الافاضلین عموما آپ کے شاگرد ہیں۔ اور لکھنو کے بہت سے علماء نے آپ سے استفادہ کیا ہے۔ آپ کا کتب خانہ فقہ و اصول کا عظیم ووقیع کتب خانہ ہے جس میں نوادر کتب اورخطوطات کا بہت بڑا ذخیرہ محفوظ ہے ۔