وہ لکھنؤ ، بھارت میں پیدا ہوئے۔ اپنے خاندان کے ساتھ عراق کا پہلا سفر ۱۳۲۷ ھ میں ہوا۔ انہوں نے نجف ، عراق میں سات سال کی عمر میں "بسم الله" سیکھا اور اپنی ابتدائی دینی تعلیم سید محمد علی شاہ شاہ عبدالزمانی سے حاصل کی۔ اپنے والد سید ابوالحسن کا اجتہاد حاصل کرنے کے بعد ، جبکہ سید علی 9 سال کے تھے ، وہ اپنے خاندان کے ساتھ لکھنؤ روانہ ہوئے۔ انہوں نے 27 سال کی عمر میں محمد حسین نعینی سے اجتہاد کی اجازت حاصل کی۔ دینی تعلیم کے لیے ان کا دوسرا سفر نجف 1927 (1345 ھ) میں تھا۔ وہ لکھنؤ ، بھارت میں پیدا ہوئے۔ اپنے خاندان کے ساتھ عراق کا پہلا سفر 1327 ھ میں ہوا۔ انہوں نے نجف ، عراق میں سات سال کی عمر میں "خدا کے نام پر" سیکھا اور اپنی ابتدائی دینی تعلیم سید محمد علی شاہ شاہ عبدالزمانی سے حاصل کی۔
علمی خدمات
آپ بے پناہ علمی صلاحیتوں کے مالک تھے ـ ایک ہی وقت میں دو مدرسوں (مدرسہ ناظمیہ اور سلطان المدارس) میں پڑھتے تھے اور آپ نے مدرسہ ناظمیہ کے فاضل اور سلطان المدارس کے سند الافاضل کا ایک ہی ساتھ امتحان دیا ـ
پھر دوسرے سال دونوں درجوں کے ضمیموں کا اور تیسرے سال ممتاز الافاضل اور صدر الافاضل کا ایک ساتھ امتحان دیا ـ
طالب علمی میں ہی رسالہ سر فراز لکھنؤ، الواعظ لکھنؤ اور شیعہ لاہور میں آپ کے علمی مضامین شائع ہونے لگے تھے ـ
3 یا 4 کتابیں بھی عربی اور اردو میں اسی زمانے میں شائع ہوئیں ـ
تدریس کا سلسلہ بھی جاری تھا ،ـ کچھ عرصے تک بحثیت مدرس، مدرسہ ناظمیہ میں بھی معقولات کی تدریس کی ،ـ
آپ کے اس دور کے شاگردوں میں مولانا محمد بشیر (فاتح ٹیکسلا)، علامہ سید مجتبی حسن کامون پوری اورحیات اللہ انصاری قابل ذکر ہیں ـ
عربی ادب میں آپ کی مہارت اور فی البدیہہ قصائد ومراثی لکھنے کے اسی دور میں بہت سے مظاہرے ہوئے اور عربی شعر وادب میں آپ کے اقتدار کو شام، مصر اور عراق کے علما نے قبول کیا ـ
اسی مہارت کو قبول کرتے ہوئے علامہ عبد الحسین امینی نے آپ کے قصائد کے مجموعے میں سے حضرت ابو طالب کی شان میں آپ کے قصیدے کو اپنی عظیم شاہکار کتاب (الغدیر) کی زینت قرار دیا ـ
نیز آقا بزرگ تہرانی نے شیخ طوسی کے حالات کو آپ ہی کے لکھے ہوئے مرثیے پر ختم کیا ـ
اسی طرح آپ کی مزید علمی صلاحیتوں کا مشاہدہ عراق میں حصول علم کے ابتدائی ایام کی تالیفات سے کیا جا سکتا ہے جہاں آپ نے سب سے پہلے عربی میں وہابیت کے خلاف ایک کتاب تصنیف کی جو کشف النقاب عن عقائد ابن عبد الوهاب کے نام سے شائع ہوئی ـ
عراق وایران کے مشہور اہل علم نے اس کتاب کو ایک شاہکار قرار دیا ـ
دوسری کتاب اقالۃ العاثر فی اقامۃ الشعائر امام حسین کی عزاداری کے جواز میں لکھی
نیز تیسری کتاب چار سو صفحات پر مشتمل السیف الماضی علی عقائد الاباضی خوارج کے عقائد کی رد میں لکھی ـ
اجازۂ اجتہاد
مندرجہ ذیل فقہاء نے آپ کو اجازۂ اجتہاد سے نوازا :
1: آیت اللہ سید ابوالحسن اصفہانی
2: آیت اللہ محمد حسین نائینی
3: آیت اللہ سید ضیاء الدین عراقی
4: آیت اللہ شیخ عبد الکریم حائری یزدی(مؤسس حوزہ علمیہ قم)
5: آیت اللہ محمد حسین اصفہانی
6: آیت اللہ ابراہیم معروف بہ مرزائے شیرازی
7: آیت اللہ شیخ ہادی کاشف الغطاء
8: آیت اللہ میرزا علی یزدانی
9: آیت اللہ شیخ محمد حسین تہرانی
10: آیت اللہ شیخ کاظم شیرازی
11: آیت اللہ میرزا ابو الحسن مشکینی
12: آیت اللہ سید سبط حسن مجتہد