محقق ہندی ، سلطان الذاکرین مولانا سید محمد حسین صاحب مجتہد ابن مولانا سید حسین زیدی البارہوی ، لکھنوی اپنے وطن لکھنو میں جمعہ کے دن 13 رجب 1276 ھ کو پیدا ہوئے۔ مولانا سید حسین صاحب علم و کمال میں بزرگ تھے۔ فرزند نے علمی ماحول میں ہوش سنبھالا، اپنے والد اور معاصر اساتذہ سے پڑھنے کے بعد مولانا سید ابراہیم صاحب مولانا علی محمد صاحب تاج العلما سے فقہ و اصول کا درس کامل کیا۔
1306 ھ میں زیارات عتبات عالیات کو گئے۔ تو نجف وکربلا کے بڑے بڑے سطحی اور خارج درسوں میں شرکت کی اور شیوخ درس نے ۱۳۰۸ ھ میں اجازت اجتہاد سے سرفراز کیا ان اجازات میں آیت اللہ شیخ زین العابدین مازندرانی نے لکھا تھا:
لاحظت بعض تحریراته في المسائل الأصوليه فوجدته من الاكابر»..
چھٹے سفر عراق میں علماء کی طرف سے محقق ہندی خطاب عطا ہوا اور المعارف ہمیشہ آپ کے مداح رہے ہے حتی کہ سید اسماعیل صدر نے آپ کی تقلید کی اجازت دی تھی۔
درس خارج
لکھنؤ میں افاضل طلاب اور اکابر علماء اس تعداد میں موجود تھے کہ لوگ نجف و قم کی طرح مستقل درس خارج کا سلسلہ شروع کرنے کے خواہشمند ہوئے چنانچہ جناب شیخ رضا حسین صاحب تعلقہ دار نے میٹینگ کرکے فیصلہ کیا اور قبلہ و کعبہ محمد حسین صاحب سے درخواست کی۔ مولانا آمادہ ہو گئے اور اس کا آغاز ہوا لیکن نجف میں درس خارج کے لئے جو طویل روایت موجود تھی لکھنو کی پچاس سالہ زندگی اس کے لئے پوری طرح سازگار نہ تھی ۔ یہ درس کچھ عرصے بعد رک گیا ۔ اگر لکھنو مزید دس بیس برس نئے حادثات سے دوچار نہ ہوتا تو یقینا وہاں درس خارج عام ہوجاتا۔
مولانا محمد حسین صاحب انتہائی مقدس ، بڑے تارک الدنیا عالم تھے ۔ خدا نے ذہن و ذکاوت غیر معمولی اعطا کی تھی ۔ قوت بیان اور قدرت تحریر میں یکتا تھے ۔ غربا پروری کا یہ عالم کہ سائل کو پورے گھر کا اثاچہ دے دیا کہ لڑکی بیاہ دے ۔ گھر والے سمجھے کہ برتن قلعی کو جا رہے ہیں۔ کئی دن بعد معلوم ہوا کہ وہ تو کسی حاجتمند کو دے دئے۔
مستغنی ایسے کہ امرا مجالس عزا کے بعد بڑی سے بڑی رقم پیش کرتے ، آپ اسی وقت لوگوں اور محتاجوں میں بانٹ دیتے یا لیتے ہی نہ تھے ۔ جب بھی روپیہ ہوا زیارت کے لئے روانہ ہوجاتے ۔ راستے میں لوگ آنکھیں فرش راہ کرتے قالین بچھاتے، سروں پر بٹھاتے تھے جیسا کہ کراچی والوں نے کیا تھا۔
پٹنے کے رؤسا نے امام باندی بیگم صاحبہ مرحومہ کے وقف میں روک لیا مگر آپ چند سال کے بعد چلے آئے۔
خطیب ایسے کہ ان سے پہلے اس انداز اور آواز کا خطیب دیکھا نہ گیا تھا ۔ ہزاروں کا مجمع، اپنے بھی بیگانے بھی مجال ہے کہ آخری شخص تک آواز نہ جائے اور مخالف ، گرویدہ نہ ہو۔ برجستہ اور برمحل تقریر ، دلکش اور بھاری بھرکم انداز ، علمی وقار ہر چیز ملحوظ رہتی تھی۔ آپ نے لکھنو بمبئی اور بے شمار شہروں میں بڑے بڑے معرکے سر کئے۔ شیعہ سنی متحدہ اجتماعات میں ہمیشہ آپ کو سب سے زیادہ پسند کیا گیا۔ لوگ آپ کی تقریر پر بے حد گرویدہ تھے ۔ لکھنو میں اس وقت تین ذاکر برابر کے تھے ۔ قاری محمد علی صاحب ، کہف العلماء سید ابن حسن صاحب ، مولوی محمد عباس مجن صاحب ، لیکن محقق ہندی ان سب پر فائق تھے ۔ دو دو گھنٹے مجلس پڑھتے اور لوگ مسحور سنتے رہتے تھے۔
مولانا مقبول احمد صاحب کی خطابت کا آغاز تھا ، موصوف جناب مرزا محمد عباس صاحب کے یہاں مہمان ہوئے۔ 20 صفر کی مجلس ہوئی تو نواب صاحب نے محقق ہندی سے درخواست کی ، مولانا دہلی سے آئے ہیں ، اگر پیش خوانی کی اجازت مرحمت ہو تو پڑھیں لوگ متعارف ہوجائیں گے ۔ محقق نے اجازت دی، مقبول احمد صاحب کا شباب ، نئے نئے سنی سے شیعہ ہوئے تھے ، مزاح و مطاعن نے مجلس کو زیر و زبر کردیا۔ ان کے بعد محقق ہندی بالائے منبر آئے اور چند لمحوں میں مجمع پہلے خطیب کو بھول کر داد دے رہا تھا۔ اور حیران تھا کہ خطابت کتنی زبردست ہو رہی ہے ۔
محقق ہندی بڑے منکسر المزاج اور تبلیغ دین میں جفا کش تھے ۔ برصغیر کے ہر بڑے شہر میں پہنچے اور لوگوں نے گرویدگی سے سنا۔ لکھنو اور بمبئی تو آپ کے مفتوحہ شہر تھے ۔ گویا بکثرت مجلس پڑھتے اور کبھی عذر نہ کرتے تھے ۔ مولوی محمد حسین نوگانوی ناقل ہیں کہ ملا سید ابن علی ساکن نوگاواں سادات نے شب جمعہ 4 صفر 1335 ھ کو وہ عمل پڑھا جس کے بعد حضرت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کی زیارت ہوتی ہے ۔ ملا صاحب نے خواب میں دیکھا مولانا محمد حسین صاحب محقق ہندی اور مولوی محمد حسین مولف تذکرہ بے بہا آئے ہیں ، محقق ہندی عمامہ و عبا میں ملبوس اور کفش پہنے ہیں اور ملا صاحب سے خیریت دریافت کر رہے ہیں ۔
حاضر جواب ، وسیع النظر اور ناموس اسلام کے نڈر محافظ تھے ۔ سر سید احمد خان کی تفسیر کے نتائج سے جوانوں میں نئے رجحان پیدا ہوئے تو آپ نے جم کر ان کے ذہنوں کو صاف کیا ۔ سنی ، عیسائی اور دہریوں سے مناظرے کئے ۔ کثرت مصروفیت کے باوجود پڑھاتے بھی تھے اور لکھتے بھی، چنانچہ بہت سی کتابیں غیر مطبوعہ اور مطبوعہ یادگار ہیں ۔
محقق ہندی مولانا محمد حسین صاحب نے 28 ربیع الاول 1337 ھ پنجشنبہ کے روز اپنے آبائی مکان محلہ دال منڈی لکھنو میں وفات پائی اور شیر جنگ کے باغ میں دفن ہوئے۔
اولاد
ظفرالحسن صاحب
نظر حسن صاحب
محمد عابد صاحب
محمد باقر صاحب
محمد صادق صاحب