ادیب عصر مولانا سید علی اختر رضوی کی ولادت 1367 ھ میں گوپال پور ضلع سیوان بہار میں ہوئی ،جب آپ تین سال کے تھے تو شفقت پدری سے محروم ہو گئے، اس کمی کو ماں نے پوری کرنے کی پوری کوشش کی اور ایسی تربیت دی جو باپ کے تعاون سے اولاد کی ہوتی ہے۔ ماں کی دلی خواہش تھی کہ آپ علم دین حاصل کریں ،چنانچہ ماں کی دلی خواہش کو عملی جامہ پہنانے کا ارادہ کیا اور استاد الاساتذہ مولانا سید رسول احمد صاحب مرحوم کے ہمراہ مدرسہ ناظمیہ لکھنؤ تشریف لے گئے اور مولانا کے ہمراہ مدرسہ واعظین میں قیام پزیر رہے۔ مدرسة الواعظین میں دو مہینے کے قیام کے بعد مالی مشکلات کی وجہ سے یتیم خانہ لکھنؤ میں داخلہ لیا اور اپنی والدہ کی خواہش اور اپنے جذبہ علم دین کو عملی جامہ پہنانے کے لیے یتیم خانہ کی سختیاں برداشت کرتے رہے۔ اور پھر حالات سازگار ہوتے ہی آپ مدرسہ ناظمیہ میں قیام پزیر ہو گئے۔1384 ھ میں الہ آباد بورڈ سے مولوی، 1385 ھ میں عالم، اور 1387 ھ میں فاضل کے امتحانات دیے اور ان سب میں امتیازی حیثیت سے کامیابی حاصل کی۔1389 ھ میں ضمیمہ ممتاز الافاضل کا امتحان دے کر وطن واپس چلے گئے۔ اور 1392 ھ میں مدرسہ ٔناظمیہ کی آخری سند ممتاز الافاضل حاصل کی۔
جب وطن واپسی ہوئی تو وطن سے قریب ہی محمد صالح انٹر کالج حسین گنج میں فارسی لکچرار کی ضرورت تھی کیونکہ چند مہینوں کے بعد وہاں سے مولانا نذر حسن صاحب مرحوم گوپال پوری تدریسی ذمہ داری سے سبکدوش ہونے والے تھے ،چنانچہ مولانا نذر حسن صاحب کی ایماء پر 1391 ھ میں آپ کی وہاں تقرری ہوئی اور زندگی کے آخری لمحے تک اس فریضے کو بحسن و خوبی انجام دیا ۔
اساتذہ
آپ کے اساتذہ میں آیة اللہ مفتی سید احمد علی صاحب، مولا نا سید رسول احمد صاحب، مولانا ایوب صاحب، مولانا روشن علی صاحب ،مولانا محمد حسین نجفی صاحب ،مولانا ثاقب صاحب،مولانا حکیم اطہر صاحب ،اور مولانا محمد شاکر صاحب قابل ذکر ہیں۔
اولاد
آپ نے چھ بیٹے اور ایک بیٹی چھوڑی ،آپ کے بڑے فرزند سید محمد اختر رضوی نجم دبئی میں مقیم ہیں اور دوسرے فرزند مولانا سید شاہد جمال صاحب سرزمین قم پر علم دین کی تحصیل میں مشغول ہیں.
کتاب و کتابخانے سے دلچسپی
کتاب اور کتب خانہ سے آپ کی گہری دلچسپی تھی، اسی ذوق کی وجہ سے راجا محمود آباد کے خصوصی کتب خانہ کو اس سلیقہ سے مرتب کیا کہ راجا صاحب نے وہاں مستقل قیام کی آپ سے پیشنہاد کی۔ مگر دیگر ذمہ داریوں کی وجہ سے اس کو قبول نہیں کیا۔ کتاب سے دلچسپی صرف جمع آوری کی حد تک نہیں تھی بلکہ آپ کی دلچسپی مطالعے کی خاطر تھی ،مطالعہ سے جو بھی حاصل ہوتا تھا اس کو زبان و قلم سے دوسروں تک منتقل کر دیتے تھے ،چنانچہ ہندوستان میں ایک عرصے سے یہ پروپگنڈہ کیا جا رہاتھا کہ شیعوں کا چالیس پاروں'کا قرآن ہے اور وہ پٹنہ کی خدا بخش لائبریری میں موجود ہے ،ظاہر سی بات ہے کہ حضرت ادیب عصرجیسے مدافع مذہب کے لیے بہت سخت تھا کہ اس کو دیکھیں اور لوگوں کو اس کی حقیقت سے آگاہ نہ کریں۔ حقیقت جاننے کے لیے خدا بخش لائبریری گئے اور اس کو دیکھ کر ایک مقالہ لکھا اور ایرانی کلچر ہائوس میں اس کی قرائت کی جس کو سن کر سامعین نے دل کھول کر داد دی۔ جب یہ مقالہ پاکستان کے کسی جریدہ میں شائع ہوا تو وہاں سے ہر طرح کے خطوط آنے لگے ،بعض لوگوں کے خطوط میں پنہاں تیور کو دیکھ کر ایک مستقل کتاب لکھنی شروع کی ،مگر ایک سفر میں وہ اٹیچی چوری ہو گئی جس میں وہ کتاب اور الغدیر کی چھٹی اور گیارہویں جلد کا ترجمہ تھاجس کا قلق حضرت ادیب عصر کو آخری عمر تک تھا۔ کتاب خانے سے خصوصی دلچسپی کے تحت آپ نے اپنے وطن گوپال پور میں ایک مختصر مگر نفیس کتابخانہ کی تاسیس کی جس میں مذہبی اور ڈھیروں ادبی کتابوں کے علاوہ بعض قدیمی خطی نسخے بھی ہیں، در حقیقت اس کتابخانہ کی بنیاد رکھ آپ نے قوم و ملت کو ایک عطیم سرمایہ فراہم کیاہے