مولانا سید احمد علی ابن عنایت حیدر بن سید علی محمدآباد ضلع اعظم گڑھ کے علم دوست گھرانے سے تعلق رکھتے تھے ۔ رمضان 1206 ھ میں پیدا ہوئے ۔ ہوش سنبھالا تو تعلیم کے بعد مولانا سید احمد علی صاحب وطن سے تلاش علم میں فیض آباد پہنچے اور مولوی سید عبد العلی دیوکھٹوی سے تعلیم حاصل کی ۔ 1225 ھ میں لکھنو آئے اور لکھنو کے مختلف اساتذہ سے مختلف علوم و فنون سیکھے ۔ فلسفہ و منطق مفتی ظہور اللہ سے اور فقہ و اصول و منقولات جناب غفران مآب سے پڑھے ۔ لکھنو کے ذی علم اور چوٹی کے مدرس مانے جاتے تھے ۔ پاٹے نالے کے محلے میں رہتے تھے ۔ پہلے شاہی مدرسے میں مدرس رہے ۔ غدر کے بعد پنشن ملتی رہی ۔ لوگ گھر پر حاضر ہو کر مختلف علوم کے درس لیتے تھے ۔ مشہور ہے کہ آپ کی تقریر کتاب کا ترجمہ ہی نہیں بلکہ اصل مسئلہ کی تحقیق و تفصیل ہوتی تھی ۔ جیسے محنت سے تیار کیا ہوا لکچر۔ پھر اصل مسئلے کے پہلو بیان کرنے کے بعد اپنی رائے بھی بیان کرتے تھے ۔ قرأت میں یگانہ روزگار تھے ۔ اور تفسیر و حدیث ، فقہ و اصول منطق و فلسفہ پر استادانہ مہارت کے علاوہ عربی ادب پر قدرت کاملہ تھی ۔ اخلاق و پاکیزہ نفسی اسی پر مستزاد جناب مفتی صاحب نے اوراق الذہب میں لکھا:
فرماتے ہیں کہ جناب غفران مآب کی رحلت کو کچھ زمانہ گزرا تھا کہ ایک دن خواب میں دیکھتا ہوں غفران مآب عادت کے مطابق مسند پر گاؤ تکیہ لگائے تشریف فرما ہیں ۔ اور میں حوض کے پاس کھڑا ہوں ۔ میرا نام لے کر آواز دی میں قریب گیا ۔ تو فرمایا ہمارے فرزند (سیدالعلما) سے کہہ دینا کہ سو دینار جو تمہارے پاس ہم نے رکھوائے تھے ان پر ایک سال گزر گیا ۔ زکوۃ واجب ہوگئی ہے ۔ میں نے کہا بہتر ہے ۔ جب بیدار ہوا تو جناب علیین مکان کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ واقعہ عرض کیا تو موصوف نے فرمایا اس رقم کا علم میرے اور والدہ محترمہ کے سوا کسی کو تھا ہی نہیں۔ میں نے اس رقم سے زکوۃ نکالنا چاہی تھی ، پھر ذہن سے بات نکل گئی۔ جناب مفتی محمد عباس صاحب نے یہ واقعہ کرامات کے طور پر نقل کیا ہے ۔
1274 ھ میں آپ نے سفر حج فرمایا۔ اس سفر میں مقامات مقدسہ کی زیارت سے مشرف ہوئے اور شیخ مرتضی انصاری ، میرزا علی نقی طباطبایی حائری و مرزا لطف اللہ مازندرانی سے مباحثات ہوئے اور استفادہ سے عزت پائی ۔
مولانا سید احمد علی صاحب نے تقریبا نوے سال کی عمر پاکر 17 ربیع الاول 1295 ھ کو لکھنو میں رحلت فرمائی ۔ چونکہ امین الدولہ وزیر اعظم کے دونوں صاحبزادے آپ کے شاگرد تھے لہذا مولانا کو امداد حسین امین الدولہ نے اپنی تعمیر کردہ کربلا میں زیر قبہ جگہ دی ۔
جناب مفتی محمد عباس صاحب نے متعدد اشعار مرحوم کی مدح میں لکھے ہیں جو رطب العرب میں موجود ہیں ۔ نواب جعفر صاحب کا قطعہ تاریخ فارسی تھا ۔
اولاد
حکیم سید محمد صاحب
مولوی سید علی میاں صاحب
مولوی سید جعفر حسین صاحب
مولوی سید محمد صادق صاحب