براہ کرم پہلے مطلوبہ لفظ درج کریں
سرچ
کی طرف سے تلاش کریں :
علماء کا نام
حوزات علمیہ
خبریں
ویڈیو
20 مُحَرَّم 1446
ulamaehin.in website logo
سلطان العلماء سید محمد نقوی

سلطان العلماء سید محمد نقوی

Sultanul Ulama Syed Mohammad Naqvi

ولادت
17 صفر 1199 ه.ق
لکهنو
وفات
22 ربیع الاول 1284 ه.ق
لکھنو
والد کا نام : آیت الله سید دلدار علی غفران م
تدفین کی جگہ : غفران مآب امام باڑہ
شیئر کریں
ترمیم
کامنٹ
سوانح حیات
تصانیف
وفات
تصاویر

سوانح حیات

غفران مآب آیت اللہ العظمی سید دلدار علی نقوی جائسی لکھنو اور بر صغیر کے عظیم ترین فقیہ و مجتہد تھے۔ تیرہویں صدی میں تمام شیعہ آپ کو مقتدائے اعظم مانتے تھے ۔ 

ان کے فرزند سید محمد صاحب لکھنو میں 17 صفر 1199 ھ مین پیدا ہوئے ۔ نہایت مقدس و پاکیزہ ماحول میں نشو و نما ہوئی ۔ والد بزرگوار نے خود تعلیم دی ۔ تفسیر ، حدیث، اصول و فقہ، کلام، منطق ، فلسفہ، ریاضی ، ہیئت  اور تمام متداول علوم میں درجہ انتہا اور کمال اجتہاد حاصل کیا ۔ 19 سال کی عمر میں 1218 ھ میں مولانا دلدار علی نے مفصل اجازہ عطا فرمایا جو چھپ چکا ہے ۔

مو عمری میں رسم لکھنو کے مطابق ، بانک بنوٹ، تلوار ، نیزہ بازی، شہسواری جیسے فنون سپہ گری میں استادی و مہارت حاصل کی تھی ۔ بچپنے میں ان کی صلاحیتیں اور نو عمری میں ان کی قابلیت اور غیر معمولی روحانیت دیکھ کر لوگ انعام غیبی کہتے تھے اور خود جناب فرماتے تھے  :

ان صاحب زمانی و الحجۃ المنتظر ربانی

قد تکفل لحضانتی و ربانی

اس کا ثبوت سلاطین وقت کا وہ جھکاؤ اور فرماں برداری ہے جو آپ سے پہلے کسی کو نہ ملی۔

نوجوانی میں فقہ و اصول اور دوسرے علوم کا درس شروع کیا۔ والد علام کے معاملات مراسلت میں کمک کی ۔ اپنے چھوٹے بھائیوں کی تعلیم و تربیت کا بار اٹھایا ۔ تصنیف و تالیف و مطالعہ میں کمی نہ آنے دی ۔ عوام کو اسلام کی برتری اور شریعت اسلام کی اہمیت اس حد تک سمجھائی کہ امجد علی ( تخت نشین 1258 ھ) نے آپ کو سلطان العلما کا خطاب اور مختار کل کا منصب پیش کیا ۔ ممالک محروسہ میں شرعی نظام جاری کیا  اور سلطان العلما کا حکم سب پر فائق رکھا۔ سلطان العلما نے قضاۃ اور مفتی مقرر فرمائے ۔ سنی شیعہ علما کو کچہریاں دیں۔ ہندؤوں کے لئے ان کے مذہبی پنڈت مقرر کرکے اسلامی نظام و قانون کو نافذ کیا۔

زکوۃ و خمس کے محکمے قائم ہوئے۔ اخوت و برادری کی فضا بحال ہوئی ۔ امجد علی شاہ کے بعد انگریزوں کی سیاست نے شدید رد عمل کا مظاہرہ کیا لیکن سلطان العلما کی شخصیت دیوار فولاد تھی۔

سلطان العلما نے سخت سے سخت غم اٹھائے ۔ بھائیوں کی وفات ، والد کا صدمہ ، پھر قوت بازو اور معین و مددگار چھوٹے بھائی سید العلما سید حسین کی موت، لیکن وہ صبر و تحمل کے ساتھ ثابت قدم رہے اور خدمت علم و دین و عوام میں کوئی کمی نہ آنے دی ۔

 

ہنومان گڑھی کا معاملہ ہو یا 1857 کا انقلاب ، آپ نے ہر مرحلے میں دوراندیشی ، حزم و احتیاط کا بے مثال مظاہرہ کیا کہ ہر شخص قبلہ کعبہ کہنے لگا۔ اور سقاط اودھ کے بعد بھی دینی امور اسی شان سے انجام سیتے رہے۔ دینی وقار کو مجروح نہ ہونے دیا۔

ان کے اقبال و اثر سے انگریز بھی متاثر تھے۔ ان کا احترام کرتے تھے اور حکومت اودھ کی سابقہ خدمات کے سلسلے میں شاہی تنخواہیں تو بند کردی تھیں ، البتہ ایک ہزار روپیہ پینشن اور حاضری عدالت سے مستثنی اور اسلحہ کی اجازت تھی ۔ دربار میں کرسی بھی معین کی گئی تھی۔

ملک کے باہر بھی عزت و احترام عام تھا۔ ایران و عرب کے علما سے مراسلت تھی ۔ اندرون ملک شیعہ سنی اکابر محبت کرتے تھے ۔ ادیب و شاعر قصائد لکھتے تھے۔ اودھ کے تمام دینی معاملات آپ ہی سے متعلق تھے ۔ اس لئے بہادر شاہ ظفر نے تشیع کا اعلان کیا تو درگاہ حضرت عباس علیہ السلام میں آپ ہی کے ذریعے علم چڑھوایا ۔ غالب نے اپنے لئے وظیفہ کی کوشش کی تو آپ سے رجوع کی ۔

آپ ہی کی کوشش سے مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ ، نجف و کربلا و مشہد میں بڑی بڑی امدادیں دی گئیں ، نہریں بنیں، مسجدیں اور مسافرخانے تعمیر ہوئے اور وقف قائم ہوئے ۔ خود لکھنو میں لاکھوں روپے کے وقف آج تک موجود ہیں ، مدرسے قائم کئے جن کے بعض آثار باقی ہیں ۔

سلاطین اودھ کے مذہبی اور اسلامی رجحانات کی ترقی میں آپ کا بڑا دخل تھا، گویا آپ اودھ کے شیخ الاسلام اور قاضی القضاۃ تھے اور تمام ملک آپ کے حکم کی تعمیل فرض سمجھتا تھا ۔

بادشاہ کے فیصلے حضرت امجد علی شاہ اعلی اللہ مقامہ نے کسی تاجر سے شاہی مسند و تکیہ تیرہ لاکھ میں خریدا، ارکان دولت نے لاکھ سوا لاکھ کی رقم دبا لی ، تاجر نے آپ کی عدالت میں استغاثہ کیا ۔ آپ نے بعد ثبوت ڈگری  دے دی ۔ اس ؑہدے دار شاہی کو وہ رقم ادا کرنا پڑی۔

حاضر جواب اور پر مزاح بھی تھے ۔

کسی نے پوچھا حضور چاندی سونے کے اگالدان کا استعمال جائز ہے؟ آپ نے فرمایا ہم تو اس میں تھوکتے بھی نہیں ۔

مولوی امراللہ صاحب سے اختلاف مذہب کے باوجود بے تکلفی تھی ۔ ایک مرتبہ موصوف تشریف لائے جناب سلطان العلما بڑے تپاک سے ملے ۔ باتوں باتوں میں مہر کا تذکرہ آیا تو فرمایا مہر واسطے اصلح اور افلح تھا کہ : کان امر اللہ مفعولا کندہ کرالیں۔

جناب مرزا محمد کامل دہلوی رحمہ اللہ علیہ کو خط تحریر فرماتے تھے تو پتہ میں بلی مارون کے بجائے ہریرہ کشاں لکھتے تھے ۔

کسی نے لکھا سید محمد بہادر  ، آپ نے جواب دیا میں خط لکھ کر آخر میں تحریر فرمایا : سید محمد بے بہادر

کسی نے عرض کی: جناب محمد مفتی عباس صاحب سے سفارش فرمادیں ، آپ نے عرضی کی پیشانی پر لکھا : یا حضرت عباس علی ؑ وقت مدد ہے ۔

نصیر آباد جائس میں شیعوں کا جلوس تعزیہ محلہ قضیانہ سے ہوکر جاتا تھا ۔ فقیر محمد خان سپہ سالار کے شہر کے سنیوں نے شکایت کی اور کہا کہ جلوس کا راستہ بدل دیں ۔ شیعہ تبرا کرتے ہیں ، نواب فقیر محمد خان گویا جناب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور واقعہ بیان کیا ۔ جناب نے فرمایا میں لکھنو میں ہوں ، وہاں کے عوام کوئی بات کیسے مانیں گے؟ میری بات جائے گی ۔ پھر خان صاحب یہ فرمائے کہ بدعت کا تھوڑی دیر ہونا بہتر ہے یا دیر تک؟ انھوں نے کہا تھوڑی دیر ۔ آپ نے فرمایا تو اگر جلوس تعزیہ قضیانہ سے نہ گیا تو راستہ بڑا ہوگا اور شیعہ دیر تک تبرا کریں گے جس کا باعث آپ ہوں گے ۔

جنگ آزادی  خاندان اجتہاد کے بزرگ سے سنا ہے کہ غدر کے بعد فوجی عدالت نے آپ سے بھی جواب طلبی کی اور پوچھا کہ آپ کے نزدیک کافروں سے جہاد کیسا ہے ؟ آپ نے فرمایا: غیبت امام میں جائز نہیں ہے ۔ انگریز نے پوچھا اور جب امام ہوں تو ؟ آپ نے فرمایا : اس وقت حضرت عیسی ؑ بھی ان کے ہمراہ ہوں گے جو وہ حکم دیں گے اس کی تعمیل ہوگی ۔

 

ایک مرتبہ بادشاہ نے آپ کو طلب فرمایا اور طے کیا کہ تعظیم نہ کریں گے ۔ دو کرسیاں تھی ، ایک پر بادشاہ خود بیٹھ گئے دوسرے پر قلمدان رکھ دیا، آپ تشریف لائے اور دروازے کے پاس پہنچ کر بآواز بلند فرمایا : یا اللہ ! (علما کسی کے گھر میں جاتے ہیں تو یہ کلمہ کہتے ہیں ، اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی بات خلاف شرع ہو یا کوئی نا محرم ہو تو ہٹ جائے۔ ) بادشاہ یہ آواز سنتے ہی کھڑے ہوگئے ، آپ نے کرسی سے قلمدان اٹھایا اور بیٹھ گئے ، بادشاہ نے کچھ الٹے سیدھے مسائل پوچھے اور اجازت دی ۔ سلطان العلما کے جانے کے بعد بادشاہ دیر تک گردن جھکائے بیٹھے رہے ۔ کسی نے رنج کا سبب دریافت کیا تو کہا میں سوچا تھا کہ قبلہ و کعبہ کی تعظیم نہ کروں گا مگر جب وہ تشریف لائے تو جیسے کسی نے میری بغلوں میں ہاتھ دے کر اٹھادیا۔ بے شک یہ سید بر حق اور واجب التعظیم ہیں ۔ میں نے ایسے عالم کی شان میں گستاخی کی نیت کی تھی ۔

 

یہی بادشاہ ایک مرتبہ اس قدر ناراض ہوا کہ اس نے سید العلما کا مکان توپ سے اڑانے کا حکم دے دیا ۔ داروغہ توپ خانہ نے ایک توپ جناب کے شریعت کدے پر اور ایک توپ شاہی محل سرا کے سامنے نصب کردی ۔ بادشاہ کو خبر ملی تو بلا کر سبب پوچھا۔ اس نے عرض کی حضور دنیا کے بادشا ہیں ، قبلہ و کعبہ دین کے بادشاہ ہیں ، میں حضور کے حکم سے ایک طرف جناب کا مکان اڑا دوں گا اور دین کے احترام میں آپ کی محل سرا بادشاہ کو یہ عقیدت بھا گئی اور افسر کو خلعت عطا کیا ۔

 

ایک مرتبہ شاہی اہتمام سے تابوت اٹھایا گیا ۔ جب جلوس سر و پا برہنہ بادشاہ کے ساتھ کربلا پہنچا تو حکم دیا گیا کہ نماز جنازہ پڑھائیے ۔ آپ نے فرمایا یہ کس کا جنازہ ہے ؟ بادشاہ نے کہا امام کا جنازہ ہے ۔ آپ نے فرمایا حضور امام کے جنازے پر امام ہی نماز پڑھا سکتا ہے ۔

اقتدار کا یہ عالم تھا کہ ایک شخص نے درخواست کی کہ حضور فلاں گھر میں جن بہت پریشان کرتے ہیں ۔ جناب نے مکان دیکھنے کی خواہش فرمائی۔ انھوں نے دعوت کا انتظام کیا ، جناب تشریف لے گئے ۔ جب دسترخوان پر بیٹھے تو دیکھا کہ ادھر کی رکابی ادھر چلی جاتی ہے ، ادھر کی پلیٹ ادھر آجاتی ہے۔ آپ نے کوئی دعا لکھ کر دسترخوان پر رکھ دی ۔ تھوڈی دیر بعد اس پر لکھا ہوا ملا ، آپ عالم دین ہیں آپ کی اطاعت ہم پر فرض ہے ، اس لئے میں جاتا ہوں ، اس کے بعد ان حضرات کو کوئی شکایت نہ ہوئی ۔

 

اولاد

سید  محمد باقر

سید محمد صادق

سید محمد مرتضی

سید محمد عبداللہ

سید بندہ حسن

سید علی اکبر

سید علی محمد

سید غلام حسین

سید محمد علی

مزید دیکھیں

تصانیف

ضربت حیدریه (دو جلد)؛ در جواب شوکت عمریه؛

طعن الرماح

منهاج التدقيق (عربی، چاپی)

سيف ياسح

أصل أصول رد سید مرتضی اخباری

سبع مثانی در تجوید

عجاله نافعه (عربی، چاپی)

علم کلام (نسخه خطی نفیسی نزد من موجود است؛

بارقه و ضیغمیه در بحث متعه جواب عبدالعزیز دهلوی؛

احياء الاجتهاد،

اصول فقه؛

تضييق و وسعت قضاء

بوارق موبقه در بحث امامت رد تحفه؛

فواید نصیریه در زکات و خمس

رساله جمعه

گوهر شاهوار،

جواب سوالات نصیرالدین حیدر پادشاه در مسأله قرآن و اهل بیت

بشارت محمدیه؛

قتال النواصب؛

حاشیه شرح سلم؛

رساله جذر اصم؛

ثمرة الخلافة؛

ازاحة الغي رد عبدالحی؛

سم الفار؛

صمصام قاطع

برق خاطف؛

کتاب مبسوط ،

تحفه بحث امامت؛

حاشیه شرح كبير؛

حاشیه شرح زبدة الاصول؛

کشف الغطاء

مزید دیکھیں

وفات

سلطان العلما نے خدمت علم و دین کی طویل خدمت گزاری کے بعد پچاسی سال سے کچھ زیادہ عمر میں شب پنجشنبہ 22 ربیع الاول 1284 ھ کو لکھنو میں وفات پائی اور حسینیہ غفران مآب میں ابدی نیند سوگئے ۔۔ ملک کے ادیبوں اور شاعروں نے مرثیے لکھے اور مصنفوں نے سوانح قلم بند کئے ۔ آپ وفات کے بعد رضوان مآب کے نام سے یاد کئے جاتے ہیں ۔

مزید دیکھیں
تصاویر
سلطان العلماء سید محمد نقوی
.
سلطان العلماء سید محمد نقوی
سلطان العلماء سید محمد نقوی
.
7ڈاؤن لوڈز
زوم
ڈاؤن لوڈ
شیئر کریں
سلطان العلماء سید محمد نقوی
دیگر علما
کامنٹ
اپنا کامنٹ نیچے باکس میں لکھیں
بھیجیں
نئے اخبار سے جلد مطلع ہونے کے لئے یہاں ممبر بنیں
سینڈ
براہ کرم پہلے اپنا ای میل درج کریں
ایک درست ای میل درج کریں
ای میل رجسٹر کرنے میں خرابی!
آپ کا ای میل پہلے ہی رجسٹر ہو چکا ہے!
آپ کا ای میل کامیابی کے ساتھ محفوظ ہو گیا ہے
ulamaehin.in website logo
ULAMAEHIND
علماۓ ہند ویب سائٹ، جو ادارہ مہدی مشن (MAHDI MISSION) کی فعالیتوں میں سے ایک ہے، علماۓ کرام کی تصاویر اور ویڈیوز کو پیش کرتے ہوۓ، ان حضرات کی خدمات کو متعارف کرواتی ہے۔ نیز، اس سائٹ کا ایک حصہ ہندوستانی مدارس اور کتب خانوں، علماء کی قبور کو متعارف کروانے سے مخصوص ہے۔
Copy Rights 2024