علامہ تفضل حسین کشمیری (1727تا 1801) ، جنہیں خانِ علامہ کا لقب دیا گیا، ایک شیعہ عالم ، طبیعات دان اور فلسفی تھے۔ وہ علمی دنیا میں آئزک نیوٹن کی کتاب ” فلسفہ طبیعت کے ریاضیاتی اصول “اور کئی دوسرے علمی رسالوں کا عربی ترجمہ کرنے کے لئے مشہور ہیں۔
علامہ تفضل حسین کشمیری 1727 میں سیالکوٹ میں ایک بااثر کشمیری خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا ،کرم اللہ، اپنے وقت کے ایک بہت بڑے عالم تھے اور انہوں نے لاہور کے گورنر معین الملک (میر منو) کے دربار میں وزیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔13 سال کی عمر میں تھے کہ علامہ تفضل کا خاندان دہلی منتقل ہو گیا جہاں انہوں نے ممتاز سنی عالم دین ملا نظام الدین سہالوی کے شاگردملا وجیہ سے بنیادی منطق اورفلسفہ کی تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے میرزا محمد علی سےقدیم ریاضی کی تعلیم حاصل کی۔ 18 سال کی عمر میں اس کا کنبہ لکھنؤ چلا گیا جہاں وہ فرنگی محل کے مدرسے میں داخل ہوگئے۔ جلد ہی ان کے ذہن میں سنی مسلک اورروایتی فلسفہ کی تعلیمات کے بارے میں شکوک و شبہات پیداہو گئے اور انہوں نے خودسے تحقیق شروع کردی۔ اس کے بعد انہوں نے شیعہ مسلک اختیار کیا اورمعقولات میں بطلیموسی فلکیات کی طرف متوجہ ہو گئے۔ انہوں نے فرنگی محل میں معروف شیعہ صوفی ملا صدرا کا فلسفہ سیکھا تھا ، لیکن جلد ہی اس خیالی شبہ علم کو ترک کر کے حقیقی تعقل میں مشغول ہو گئے۔ سائنس کےتاریخ دان سائمن شیفر لکھتے ہیں:
”نیوٹن کی وفات کے سال میں شمالی سیالکوٹ میں پیدا ہونے والے تفضل حسین کا تعلق ایک نامور گھرانے سے تھا جو مغل دربار کے قریب تھےاور انہوں نے شیعہ مسلک اختیار کر لیا تھا ۔ انہوں نے شاہی دارالحکومت دہلی میں منطق ، ریاضی اور فلسفہ طبیعت کی تعلیم حاصل کی ۔ 1745 میں ان کے والد اودھ منتقل ہوگئےاور نواب شجاع الدولہ کے دربار میں جلد ہی بلند مقام حاصل کر لیا ۔تفضل نے لکھنؤ کے مشہور مدرسہ دار العلوم فرنگی محل میں داخلہ لیا جو ولندیزی تجارتی کمپنی کی متروک عمارت میں قائم ہوا تھا جسے 1693 میں بادشاہ اورنگ زیب نے قبضے میں لے کر ملا نظام الدین سہالوی کے حوالے کر دیا تھا۔ ملا نظام الدین سہالوی کے تیار کردہ درس نظامی میں طلبہ کو امور مملکت چلانے کیلئے یونانی عربی معقولات اور اسلامی فقہ کی تعلیم دی جاتی تھی۔ دار العلوم کا تعلیمی معیار مغل دربار کے ساتھ ساتھ برطانوی دربار میں بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔نوجوان تفضل کے گھرانے کا تعلق شرفا کے طبقے سے تھا اور ان کی ہندی فارسی روایت میں عقلی علوم اور زبان و ادب میں مہارت سیاسی طاقت حاصل کرنے کی ایک لازمی شرط تھی، جو انہوں نے دہلی اور لکھنؤ میں تعلیم کے دوران حاصل کی۔ انہوں نے ارسطوئی منطق اور اقلیدس و بطلیموس کی ریاضی کی عربی شروحات میں مہارت کے ساتھ ساتھ فقہ اور مدیریت کا علم حاصل کیا۔ “