سید مہدی ابو ظفر (1246-1306 ھ)، میر حامد حسین ہندی کے نام سے مشہور، تیرہویں صدی ہجری کے ہندوستان کے سادات اور شیعہ علماء میں سے تھے۔ آپ نے تشیع کے دفاع اور شیعوں کے خلاف لکھی گئی کئی کتابوں کے جوابات لکھے۔ ان کی سب سے مشہور کتاب عبقات الانوار چند جلدوں کا مجموعہ ہے کہ جسے انہوں نے امام علی (ع) کی امامت و ولایت کے اثبات اور دفاع میں لکھا۔ مختلف علمی محافل میں آپ کی بہت توصیف بیان ہوئی ہے اور چہ بسا آپ کو شیعہ علماء میں کم نظیر جانا گیا ہے۔
سيد مير حامد حسين بن سید محمد قلی موسوی ہندى نيشابورى شیعہ متكلّمین میں سے ہیں۔ آپ ہندوستان کے شہر میرٹھ میں 5 محرم 1246 ھ کو پیدا ہوئے۔ آپ کا نام سید مہدی رکھا گیا اور کنیت ابو ظفر تھی۔ ایک رات آ پ کے والد سید محمد قلی نے خواب میں اپنے جد امجد سید حامد حسین کو دیکھا۔ پھر بیدار ہوئے تو آپ کو بیٹے کی ولادت کی خبر ملی۔ آپ نے اس خواب کے پیش نظر آپ کو سید حامد حسین کے نام سے شہرت دی۔ 15 سال کی عمر میں آپ کے والد میرٹھ سے لکھنو آ گئے۔
والد کی جانب سے آپ کا شجره نسب 27 پشتوں میں امام موسی کاظم(ع) سے ملتا ہے۔ آپ اہل علم خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کے اجداد ایران کے شہر نیشابور کے رہنے والے تھے اور ساتویں صدی ہجری میں مغولوں کے ایران پر حملے کی وجہ سے آپ کے اجداد نے ہندوستان ہجرت کی اور وہیں قیام پذیر ہوئے۔
نیشابوری بادشاہوں کے دور میں مشہد اور نیشاپور سمیت ایران کے کئی شہروں سے لوگوں کی کثیر تعداد نے ہندوستان ہجرت کی اور اس کے مختلف شہروں میں آباد ہوئے۔ اس وقت کے ہندوستان کے حکومتی دربار کی مذہبی اور سیاسی شخصیات خراسانی تھیں۔ نیشاپور کے نقوی سادات اودھ کے بادشاہوں کے دور میں ہندوستان چلے گئے تھے۔ سید میر حامد حسین نیشابوری صاحب عبقات الانوار انہی بادشاہوں کے ماتحت اپنی فعالیتیں انجام دیتے تھے۔
آپ نے چھ سال کی عمر میں مقامی مدرسے میں شیخ کرم علی کے ہاں تعلیم شروع کیا۔ لیکن کچھ مدت بعد آپ کے والد نے آپ کی کی تعلیمی ذمہ داری اپنے ذمہ لے لی اور 14 سال کی عمر تک آپ نے مقدمات اور علم کلام کی تعلیم حاصل کی۔[5] مير حامد حسين 15 سال کی عمر میں اپنے والد کی وفات کے بعد اپنی پڑھائی کو جاری رکھنے کیلئے دیگر اساتید کے ہاں گئے۔
مقامات حريرى اور ديوان متنبى نامی کتابوں کو مولوى سيد بركت على اور نہج البلاغہ کو مفتی سید محمد عباس شوشتری کے ہاں پڑھی۔ علوم شرعيہ کو ہندوستان کی معروف ترین شخصیات سلطان العلماء سيد محمد بن دلدار على اور اان کے بھائی سيد العلماء سيد حسين بن دلدار على پڑھے اور علوم عقليہ سيد العلماء سيد مرتضى کے فرزند، ملقب بہ خلاصۃ العلماء کے پاس پڑھے۔
اس زمانے میں مناہج التدقيق نامی کتاب جو اپنے استاد سيد العلماء سيد حسين بن دلدار على کی تصنیفات میں سے تھی، کو ان سے لے کر اس پر حاشیہ لکھا۔ کئی سال تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ تحقیق اور ریسرچ کے شعبے سے منسلک ہوگئے۔ ابتداء میں اپنے پدر سيد محمد قلى کی تصانیف رسالہ تقيّہ اور تشييد المطاعن کی تصحيح، نقد اور اس کتاب کے متن کا اصلی منابع کے متن سے مقائسہ شروع کیا۔
مولوى حيدر على فيض آبادى کی شیعوں کے خلاف لکھی گئی كتاب منتہى الكلام کے منظر عام پر آنے کے بعد اس کے جواب میں آپ نے "استقصاء الافحام" نامی کتاب لکھی۔ ایک طرف مخالفين یہ دعوا کر رہے تھے کہ شيعہ اس کتاب کے مطالب کا جواب دینے کی قدرت نہیں رکھتے یہاں تک کہ کتاب کے مؤلف کے بقول اگر شیعوں کے اولین ور آخرین بھی جمع ہونگے تو بھی میری کتاب کا جواب نہیں دے سکیں گے۔ دوسری طرف سے ہندوستان کے یزرگ علماء جیسے سلطان العلماء، سيد العلماء، مفتی سید محمد عباس شوشتری وغیرہ خاص حکومتی حالات کے پیش نظر اس طرح کی کتابوں کے جواب نہیں دے سکتے تھے ایسے میں سید میر حامد حسین صاحب کا جواب نہایت ہی تعریف کے لائق قرار پایا۔
اس کے بعد كتاب شوارق النصوص پھر عظیم المرتبت جلدوں پر مشتمل مجموعہ عبقات الانوار کی تألیف میں مشغول ہوگئے اور عمر کے آخر تک اسی طرح تحقیق و تصنیف میں مصروف رہے۔
سنہ 1282 ھ میں حج اور اس کے بعد عتبات عالیات کی زیارت سے مشرف ہوئے۔ حرمین شریفین سے نادر کتابوں سے کچھ نمونہ برداری کی اور عراق میں علماء کی عملی محافل میں شرکت کی جہاں آپ کی نہایت قدردانی کی گئی اور آپ کو شاندار خراج تحسین پیش کی گئی۔ ان مسافرتوں سے واپس آکر ان مسافرتوں میں انجام دینے والے علمی کارناموں کو "اسفار الانوار عین وقایع افضل الاسفار" نامی کتاب میں جمع کیا۔
مير حامد حسين نہایت ہی پر تلاش، زمان شناس اور اسلامی شناس عالم دین تھے۔ اپنی ساری زندگی دینی اعتقادات میں تحقیق و تصنیف اور دین اور اعتقادات کی دفاع میں صرف کیا۔ زیادہ لکھنے کی وجہ سے آپ کا دائیں ہاتھ کام کرنا چھوڑ دیا اور عمر کے آخری ایام میں بائیں ہاتھ سے لکھنے لگے۔ اور بعض اوقات آپ بولتے تھے اور دوسرے لکھتے تھے۔
عمر کے آخری ایام تک کار و تلاش جاری رکھا یہاں تک کہ مریض ہو گئے جس کی بنا پر بیٹھا بھی ممکن نہیں تھا اور آپ پشت کے لیٹے رہتے تھے اور اسی حالت میں بھی اپنے سینے پر کتاب رکھ کر مطالعہ اور لکھتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ سینے پر کتاب رکھ کر زیادہ مطالعہ کرنے کی وجہ سے کتاب کا اثر آپ کے سینے پر رہ گیا تھا۔
ماہ صفر 1306 ھ کی 18 تاریخ کو آپ کی وفات واقع ہوئی اور آپ کو آپ کے حسینیہ میں ہی دفن کیا گیا۔ آپ کے وفات کی خبر کے بعد عراق میں مختلف مقامات پر آپ کے سوگ میں مجالس متعقد ہوئی۔
لکھنو میں آپ کی لائبریری میں شیعہ اور غیر شیعہ کتابوں کا ذخیرہ موجود ہے۔ سید محسن امین صاحب اعیان الشیعہ اس لائبریری کی کتابوں کی تعداد کو 30 ہزار سے زیادہ خطی اور مطبوعہ کتابیں ذکر کرتے ہیں۔