بحر العلوم مولانا سید محمد حسین بن ملک العلماء سید بندہ حسین صاحب کی تاریخ ولادت یکم رجب 1267 ہے ۔ آپ کے چھوٹے بھائی ملاذ العلماء سید ابوالحسن لکھنو میں بچھن صاحب اور آپ علن صاحب کہلاتے تھے۔ آپ کے والد نے یحیی و زکریا نام رکھا تھا ۔ لیکن یہ نام مشہور نہیں ہوئے ۔
تعلیم
مولانا علن صاحب خوبصورت ، ذہین اور اعلیٰ درجے کے صاحب حافظہ تھے ۔ الفیہ ابن مالک یاد کی اور آخر تک اس کے اشعار یاد رہے ۔
مولانا سید حسن (احاطہ کمال و جمال ) ملا علی نقی (استاد کینگ کالج ) مفتی محمد عباس صاحب اور اپنے والد سے صرف اور نحو تفسیر و حدیث ، عقائد و ادب ، معقولات و منقولات کا درس مکمل کیا ۔
طب کی کتابیں حکیم کمال الدین موہانی اور حکیم نبا صاحب سے پڑھیں اور حکیم نبا صاحب کے مطب میں بھی بیٹھنے ۔
اثناء طالب علمی میں مطالعہ اور یاد کرنے کی زحمت نہیں اٹھائی۔ خواجہ غلام حسنین صاحب آپ کے ہم درس تھے ۔ ان کی روایت ہے کہ جماعت میں جناب بچھن صاحب عبارت پڑھتے اور وہی میر درس ہوتے ۔ لیکن جس دن علن صاحب دھیان سے پڑھتے اور اعتراض و بحث شروع کردیتے تو دو ، دو دن سبق ملتوی رہتا ۔
رات کو جناب بچھن صاحب مطالعہ کرتے اور سبق کا اعادہ کرتے ۔ دونوں بھائی ایک جگہ رہتے تھے ۔
ایک مرتبہ جناب علن صاحب نے بھی مطالعہ کے لئے کتاب اٹھائی مگر بند کر کے رکھ دی ۔ چھوٹے بھائی نے کہا: بھیا کتاب دیکھ چکے؟ جواب دیا: میں تو کتاب کی جلد دیکھ کر مطلب سمجھ لیتا ہوں۔
مولانا لطف حسین صاحب فرماتے تھے کہ جناب علن صاحب رفتار و گفتار میں سلطان العلماء سے مشابہ تھے ۔
جناب مرزا محمد جعفر اوج کہتے تھے : جامع معقول و منقول ہیں تو جناب علن صاحب قبلہ ہیں باقی دور و تسلسل ہے۔
سنہ 1396ھ میں والد نے رحلت کی ۔ دو تین سال نجف جانے کی نیت کرتے رہے ۔ آخر سنہ 1299 ھ میں عازم عراق ہوئے ۔ عراق پہنچ کر شیخ العراقین آیۃ اللہ شیخ زین العابدین مازندرانی م 1305 ھ کے درس خارج میں بیٹھنے لگے۔ سال ڈیڑھ سال میں اتنی صلاحیت نمایاں کی کہ 8 محرم 1301 ھ کو آقای شیخ نے اجازت مرحمت فرمادیا ۔ یہ اجازہ 1303 ھ میں چھپ چکا ہے۔ آقای شیخ حسین مازندرانی بھی آپ کے مداح رہے ۔
ذہانت ذکاوت کی وجہ سے فراغت کے بعد بہت جید الاستعداد ہوئے لیکن دینی فرائض چھوٹے بھائی کے سپرد رہے ۔ خود مطب کیا اور بڑے معرکے کے علاج کیے ۔ جناب مفتی صاحب نے اسی رجحان کے مطابق آپ سے منجزات مریض پر رسالہ لکھوایا جسے دیکھ کر مفتی صاحب نے اجازہ دیا۔
بچپنے میں لکھنؤ کے عام دستور کے مطابق فنون سپہ گری سیکھے مگر نئی بات یہ تھی کہ تمام علما تو فینس میں سفر کرتے مگر آپ گھوڑے پر اس عادت پر اہل لکھنؤ اعتراض کرتے اور نظم و نثر میں بحث رہتی۔ ایک مرتبہ آپ گھوڑے سے گرے تو ’’ اودھ پنچ ‘‘ نے سرخی جمائی ’’ السلام علی الخد التریب‘‘ اور جناب اوج نے کہا:
مقام گریہ ہے ، وا حسرتا و وا اسفا
تصنع اور تشخص ہو شیوہ علماء
جو مستحب ہے فرس کی سواری زیبا
وہ نا روا ہو اور اس کے عوض فنس ہو روا؟
سوار چار کے کاندھوں پہ جیتے جی ہونا
گنہ نہیں ہے پہ احدی ہے واقعی ہونا
جناب علن صاحب خوش باش ، طبیب اور عالم و مدرس تھے ۔ مریضوں سے بہ شفقت اور طلباء سے بہ احتران سلوک کرتے تھے ۔ طلبا کی عزت و خوشحالی و اعزاز کا خیال رکھتے تھے ۔ ان سے اولاد کی طرح محبت رکھتے تھے ۔
آپ تصور کھینچوانا پسند نہ کرتے تھے ۔ کسی نے آپ کی اطلاع کے بغیر ایک تصویر کبھی کھینچ لی تھی وہی چھپتی رہی۔
جناب سید بچھن صاحب کے بعد خاندان اجتہاد میں آپ مرجع کل قرار پائے ۔ اپنی خطابت و فقاہت کی بنا پر برصغیر میں منفرد شخصیت کے مالک ہوئے ۔ اعزاز و اقبال کے عین عروج میں جمعہ 28 رجب 1325 ھ کو لکھنو میں رحلت کی ۔ آپ کی قبر غفران مآب کے امام باڑے میں ہے۔