برصغیر کے غیر معمولی علما میں جن افراد کا نام سرفہرست ہے اس میں علامہ غلام حسنین کنتوری، علوم مشرقیہ کے مجدد مانے جاتے ہیں۔ علامہ کنتوری کو متعدد علوم اور کئی زبانوں پر ماہرانہ عبور تھا۔ عربی بلا تکلف لکھتے اور بولتے تھے۔ فارسی کے نثر نگار تھے۔
علامہ غلام حسنین کنتوری 17 ربیع الاول 1247 ھ میں پیدا ہوئے ۔ کمسنی ہی میں ابتدائی تعلیم حاصل کرکے 1254ھ میں لکھنو آکر شاہی مدرسے میں داخل ہوگئے ۔ 1262 ھ میں جناب مفتی محمد قلی کی صاحبزادی سے عقد ہوگیا۔
جناب ممتاز العلما سید تقی صاحب ، جناب سید احمد علی صاحب محمد آبادی ، جناب سید حسین صاحب علیین مکان جیسے اساتذہ سے اجازہ ہائے کمال حاصل فرمایا۔
1278 ھ میں فالج کا شدید حملہ ہوا، اسی عالم میں خواب دیکھا کہ دو عیسائی عورتیں انجیل لئے کہہ رہی ہیں : عیسائی ہو جاؤ تو ابھی تندرست ہوجاؤ گے۔ یہ سن کر آپ کو سخت غصہ آیا ، جس کی گرمی سے حرارت غریزی میں اشتعال پیدا ہوا اور پسینہ سے بدن بھیگ گیا۔ سدہ ہائے بلغمی تحلیل ہوئے اور فالج کا اثر جاتا رہا۔
1289 ھ میں ایک مدرسہ قائم کیا جس کے منصوبے اور معیار کو دیکھ کر تمام علمی حلقوں نے مسرت کا اظہار کیا۔
اخبار الاخیار نامی اخبار نکالا۔ گھڑی سازی اور صابون بنانے کا کارخانہ قائم کیا ۔ ایک پریس لگایا جس میں جناب ممتاز العلما سید تقی صاحب کی تفسیر شائع کرنا شروع کی۔ بہت دنوں تک تہافۃ الفلاسفہ نامی رسالہ نکالتے ، روشن فکر اور با عمل علما کی طرح قومی ترقی اور خوش حالی کی فکر اور ملی و ملکی مسائل میں عملی حصہ لینا فرض سمجھا ، شیعہ سنی اتحاد کے داعی اور سنی علماکے ساتھ مل کر کام کرنے والے تھے۔ چنانچہ ندوۃ العلما کی تعمیر میں وہ مولانا شبلی کے ساتھ تھے۔
قرآن و حدیث، فقہ و اصول کے علاوہ موسیقی، کیمیا، مسمریزم، تشریح الاعضا، طبیعیات، فلسفہ ، طب و غیرہ میں وہ کمال تھا کہ قانون شیخ کا اردو ترجمہ جس قدر صحیح و فصیح آپ نے کیا ہے شاید ہی کسی نے کیا ہو۔ جدید علم کلام کے لئے آپ کی کتاب انتصار الاسلام کا مطالعہ مفکرین اسلام کے لئے بصیرت افروز ہے ۔
آپ نے ظاہری وضع علما جیسی تو نہیں رکھی لیکن اکابر علما جیسے کام ضرور کیے۔ ہندوستان کے متعدد شہروں ، قریوں ، دیہاتوں، ریاستوں اور صوبوں میں رہے۔ لیکن اپنے عالمانہ انداز سے دین کا دفاع ، مذہب کا تحفظ اور طبی خدمتیں جاری رکھیں ۔ ملک کے اخبارات و رسائل میں مضامین چھپتے تھے۔ اسلام کے خلاف ہر اعتراض کا جواب لکھتے تھے۔
سائنس کے تجربے ، طبی تحقیقات ، فلسفی مباحث ان کے روز مرہ کی باتیں تھیں۔ معاشی طور پر کوئی کاص اطمینان نہ ہونے کی وجہ سے وہ ایک جگہ جم کر کام نہ کرسکے۔
علامہ غلام حسنین صاحب نے 13 ربیع الاول 1337 ہجری فیض آباد میں رحلت کی اور کنتور میں آسودہ لحد ہوئے۔ اسی رات چاند گہن بھی ہوا اور لوگوں نے اسے ہمہ گیر غم کی علامت مانا۔
اولاد
مولوی تصدق حسین صاحب
مولوی محمد علی صاحب