سید سبط حسن بن وارث حسین نقوی 1296 ھ جائس ضلع رائے بریلی ہند میں پیدا ہوئے ، ابتدائی تعلیم وطن میں حاصل کی پھر لکھنو آئے اور مدرسہ ناظمیہ میں نام لکھوایا ، جناب نجم الحسن صاحب قبلہ کی نگرانی میں ممتاز الافاضل کیا ۔ اس کے بعد سید باقر صاحب سے درس لے کر صدر الافاضل کی سند لی ۔ پنجاب یونیورسیٹی سے مولوی فاضل کیا ۔
ذہن خداداد ، اعلی درجے کے ساتھی ، توفیق الہی محنت اور شفیق اساتذہ نے سونے کو کندن بنا دیا ۔ جو دن گزرتا تھا ، طالع چمکتا تھا ، جو کام کرتے عزت بڑھتی تھی ، درس دیا تو طلبا نے فخر کیا۔ لکھا تو پڑھنے والے پھڑک گئے ۔
عربی و فارسی میں ادیبانہ مہارت اور اسالیب بیان میں اہل زبان کا تیور تھا ۔ اردو کی نظم و نثر و تحریر ہر میدان میں لوہا منوایا۔
ذاکری یعنی فن بیان فضائل و مصائب محمد و آل محمد علیہم السلام کی سینکڑوں سال پرانی روایت میں ایسا ڈھنگ اختیار کیا کہ اہل دانش و بینش گرویدہ ہوگئے ، ادب و علم و نکتہ آفرینی کا وہ رنگ ایجاد کیا کہ علما دنگ رہ گئے ۔ تفسیر و حدیث کی بات ہو یا کلام و فلسفہ کا موضوع عام مسئلہ ہو یا خاص نکتہ جب چاہتے تھے اور جس طرح چاہتے تھے لکھتے اور بولتے تھے ۔
1925 میں حکومت نے شمس العلما کا خطاب دیا اور اہل علم خطیب آل محمد علیہم السلام کے نام سے یاد کرنے لگے۔ بلبل گلستان خطابت اور عالم شیوا بیان ان کے صفاتی نام تھے ۔
آپ نے 28 محرم 1354 کو لکھنو میں وفات پائی ۔ خبر وفات پورے ملک میں آگ کی طرح پھیل گئی، تمام ملک کے اخبارات نے خاص شمارے اور اعلانیے نکالے ۔ پورے ملک کے دانشوروں نے سوگ منایا ۔ آپ کا جنازہ شیعہ سنی ہندو اور عیسائیوں کے اجتماع سے اٹھا ۔ اس کی مثال اس سے پہلے بزرگوں نے نہیں دیکھی تھی ۔ دریائے گومتی پر غسل ہوا ۔ وکٹوریہ پارک میں باقتدا نجم العلما نماز جنازہ ادا کی گئی اور امام باڑہ غفران مآب میں دروازہ مسجد کے سامنے صحنچی میں سپرد لحد ہوئے ۔
مولانا کے اردو فارسی اور عربی دیوان کی ترتیب و اشاعت نہ ہوسکی۔ ورنہ ادب میں ایک قیمتی اضافہ ہوتا
اولاد
منظر ، محمد موسی ، سالک لکھنوی، وارث حسن
تعمیری کارنامے
شیعہ کالج لکھنو کی تاسیس جس میں وؤسا و راجگان کے پہلو آپ نے خود اپنی آمدنی کا معتد بہ روپیہ دیا ۔ اس ادارے کے بانی تین لوگ ہیں: مولانا سبط حسن صاحب ، نواب فتح علی خان قزلباش اور نواب حامد علی خان آف رام پور رحمۃ اللہ علیہم
1337 ھ میں مدرسۃ الواعظین لکھنو قائم ہوا تو مولانا پہلے صدر مدرس معین ہوئے ۔
کتب خانہ: مرحوم کو کتابوں سے عشق تھا۔ آپ کا انتہائی قیمتی کتب خانہ جناب راہ صاحب محمودآباد نے محفوظ فرمالیا تھا ۔