براہ کرم پہلے مطلوبہ لفظ درج کریں
سرچ
کی طرف سے تلاش کریں :
علماء کا نام
حوزات علمیہ
خبریں
ویڈیو
20 مُحَرَّم 1446
ulamaehin.in website logo
سید محمد مهدی بهیک پوری صاحب لواعج الاحزان

سید محمد مهدی بهیک پوری

Syed Mohammad Mehdi bheekpuri

ولادت
25 ربیع الثانی 1269 ه.ق
مظفر پور
وفات
23 جمادی الثانی 1348 ه.ق
مظفر پور
والد کا نام : مولانا سید علی
تدفین کی جگہ : بهیک پور
شیئر کریں
ترمیم
کامنٹ
سوانح حیات
سفر حج و زیارات
تصانیف
علمی مرتبہ
خطابت اور شاعری
وفات
تصاویر
متعلقہ لنکس

سوانح حیات

مولانا سید محمد مہدی مولانا سید علی کے فرزند اکبر تھے۔  آپ کی ولادت 25 ربیع الثانی ۱۲۶۹ غالبا آپ کے ننہال بنگرہ ضلع مظفرپور میں ہوئی۔ آپ نے تحفۃ الابرار میں تحریر فرمایا ہے کہ آپ کے والد ماجد کو اولاد کی صحیح تربیت کی اہمیت کا اتنا احساس تھا کہ زمانے رضاعت ختم ہوتے ہیں آپ کو اور اس کے بعد آپ کے چھوٹے بھائی مولانا حکیم ڈاکٹر سید محمد جواد صاحب کو اپنی نگرانی میں لے لیا۔ تربیت و تعلیم اور نگہداشت کے تمام امور بنفس نفیس خود انجام دیتے تھے لیکن یہ محبت عقل کے تابع تھی اور ایک لمحہ کے لیے بھی اپنے بچوں کی تعلیم اور تہذیب نفس میں تساہلی نہیں فرماتے تھے۔

16 سال کی عمر میں آپ سایہ پدری سے محروم ہو گئے پھر حصول تعلیم کی غرض سے آپ پٹنہ تشریف لے گئے وہاں کچھ عرصہ تحصیل علم میں گزار کر لکھنؤ کا سفر کیا اور وہاں مختلف علماء سے درس لینا شروع کیا سواءالسبیل کی تقریظ سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نے تاج العلماء مولانا سید علی محمد صاحب طاب ثراہ خاص طور سے کسب فیض کیا۔ آخر میں اوحد الناس مفتی سید محمد عباس صاحب خطاب اسرار کے حلقہ تلامذہ میں داخل ہوگئے۔ مرزا محمد ہادی صاحب عزیز لکھنوی نے تجلیات میں مفتی صاحب کے تلامذہ کی فہرست میں مولانا سید محمد مہدی بھی پوری کے علاوہ مولوی سید نظر حسن صاحب پوری اور مولوی سید مرتضی صاحب فلسفی نونہروی کے نام لکھے ہیں۔ مولانا سید تصدق حسین صاحب کنتوری ابن علامہ کنتوری سے بھی آپ نے استفادہ کیا تھا۔

چونکہ کے استاد اور شاگرد کی عمروں میں صرف سات سال کا فرق تھا اس لئے قیاس کیا جاسکتا ہے کہ سید محمد مہدی صاحب نے ورود  لکھنو کے فورا بعد ان سے متوسطہ کی کتابیں پڑھی ہوں گی۔

تحصیل علم سے فراغت پانے کے بعد آپ ۱۳۰۶ ھ پہلے مظفرپور آئے اور نواب حاجی سید محمد علی خان ابن نواب حاجی سید محمد تقی خان کی سرکار میں طرح اقامت ڈالی۔ نواب سید محمد تقی خان ابھی حیات تھے نواب صاحب موصوف میں محلہ کمرہ مظفر پور میں ایک مسجد اور عالیشان امام بارگاہ تعمیر کیا تھا نیز مدرسہ ایمانیہ کی تاسیس کی تھی۔

نواب صاحب مرحوم نے 13 جمادی الاول ۱۳۰۶ھ میں ۸۸ سال کی عمر میں رحلت فرمائی اپنی وفات سے ایک سال قبل انہوں نے بارہ ہزار روپے سالانہ آمدنی کی جائیداد ان کارہائے خیر کے لیے وقف کر دی تھی۔

مولانا سید محمد مہدی صاحب تقریبا ساری زندگی اسی مدرسے مسجد اور امام باڑہ سے بحیثیت مدرس اعلی اور خطیب منسلک رہے۔ مولانا سید محمد مہدی صاحب اس وقت سے مدرسہ ایمانیہ کے مدرس اعلی کی حیثیت سے منسلک ہوئے تھے جب مسجد کی پیشن نمازی مولانا سید عابد حسین صاحب سے متعلق تھی۔

جب ۱۳۲۰ھ میں مولانا سید عابد حسین صاحب قبلہ سلطان المدارس لکھنؤ تشریف لے گئے اس وقت سے مولانا سید محمد مہدی صاحب کے سر پر مدرسے کے ساتھ ساتھ مسجد کی ذمہ داری بھی آ گئی اور ان ذمہ داریوں کو آپ آخر عمر تک انجام دیتے رہے۔

 

 

شادیاں اور اولاد

آپ کی شادی خدیجہ خاتون بنت جناب سید الہی بخش صاحب بھیک پوری سے ہوئی تھی۔ ان سے آپ کو ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہوئی بیٹے جناب حکیم سید محمد سجاد صاحب جو پہلے حاجی گنج پٹنہ میں مطلب کرتے تھے پھر تقریبا ۱۳۲۳ھ میں مظفر پور منتقل ہوگئے۔ بیٹی حاجرہ خاتون تھیں جو علامہ سعید اختر رضوی کی نانی تھیں، خدیجہ خاتون کا انتقال پٹنہ میں ۱۰ شوال ۱۳۳۰ھ کو ہوا۔

مزید دیکھیں

سفر حج و زیارات

سفر زیارت

آپ نے عراق کے مشاہد مشرفہ آقا کی زیارت دو مرتبہ کی تھی اور دوسرے سفر میں مشہدمقدس بھی تشریف لے گئے تھے نہ ہوسکا دوسرا سفر ۱۳۰۷ھ میں ہوا تھا۔ عراق میں آپ کو سرکار مرزا سید محمدتقی شیرازی نے اجازہ روایات و امور حسبیہ عطا فرمایا تھا۔

ہندوستان میں فقیہ اہلبیت مولانا سید محمد باقر صاحب قبلہ نے آپ کو مفصل اجازہ روایت عطا کیا تھا جو مواعظ المتقین میں چھپا ہے۔

 

سفر حج

۱۳۲۱ھ میں آپ اپنی اہلیہ اور چند دیگر رشتے داروں کے ساتھ حج و زیارت مدینہ منورہ سے مشرف ہوئے۔

مزید دیکھیں

تصانیف

آپ نے اپنی حیات طیبہ میں اردو میں چھ اور فارسی و عربی میں ایک ایک کتابیں تحریر فرمائیں جو سب آپ کی زندگی ہی میں زیور طبع سے آراستہ ہوئیں ۔ذیل میں ان کی قدرے تفصیل پیش کی جارہی ہے :

١۔ سواء السبیل

یہ کتاب اردو میں ہے ، آپ کی سب سے پہلی تصنیف ہے جس میں اصول عقائد کو عقلی و نقلی دلائل کے ذریعہ پیش کیاہے ۔ اوپر بیان کیاگیا کہ جب آپ نے مظفر پور میں اقامت فرمائی اور لوگوں سے گفتگو کی تو اندازہ ہوا کہ عام طور پر لوگ اصول دین و مذہب کو استدلالی طریقہ سے نہیں بلکہ تقلیدی طور سے مانتے ہیں اسی لئے ان کی ہدایت کے لئے آپ نے یہ کتاب تحریر فرمائی ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو وقت کی ضرورت کا شدید احساس تھا ۔ یہ کتاب ١٣٠٦ھ ؁سے قبل مطبع اثنا عشری لکھنؤ سے شائع ہوئی ۔

اس کتاب کے متعلق بیان کیاجاتاہے کہ اسے پڑھ کر مولوی شیخ عبد السبحان صاحب ( مقیم سیوان ) نے مذہب حقہ قبول کیاتھا ، چنانچہ تذکرۂ بے بہا نے بھی اسے نقل کیاہے ۔

٢۔ حجة بالغہ

یہ کتاب بھی اردو زبان میں مناظرہ کی کتاب میں ہے جس میں ملا غلام قادر صاحب مدراسی کے چار سوالوں کے جواب میں لکھی گئی تھی ۔ ١٨٢ صفحات پر مشتمل یہ کتاب خیر المطابع پٹنہ سے شائع ہوئی ۔

٣۔ ٤۔ زمزمة الحجاج و مدینة الزیارات

یہ کتاب اردو زبان میں جناب نواب سید علی نواب صاحب ابن نواب حاجی سید محمد تقی خان صاحب کی فرمائش پر تحریر فرمائی ۔ نواب صاحب مرحوم نے شوال المکرم١٣٢٥ھ میں سفر حج کا قصد کیا تو مولانا سید محمد مہدی صاحب سے فرمائش کی کہ ایک مختصر رسالہ حج کے احکام کے متعلق اردو زبان میں تحریر کر دیں تاکہ ضرورت کے وقت اس سے استفادہ کیاجاسکے اور کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہ ہو ۔ چنانچہ آپ نے انہیں کی فرمائش پر سلیس اردو زبان میں تحریر فرمائی اور یہ بھی تحریر فرمایا : '' اور چونکہ میں نے اس رسالہ کو موافق احتیاط کے لکھا ہے تو انشا ء اللہ ہر زمانے میں عام مومنین مقلدین کے حق میں معین ومفید ہوگا ''۔

اسی سے ملحق رسالہ ' ' مدینة الزیارات '' ہے جس میں مدینہ منورہ کی تمام زیارتیںمذکور ہیں ۔ یہ دونوں رسالے پہلی مرتبہ نواب صاحب مرحوم کے خرچ سے عالم پریس لکھنؤ سے ١٣٢٦ھ میں شائع ہوئے ، نواب صاحب اسے زائرین اورحاجی کو ہدیة ً عنایت فرماتے تھے ۔ پہلا ایڈیشن جلد ہی ختم ہوگیا اور رسالہ کی طلب بدستور قائم رہی تو نواب صاحب مرحوم نے دوبارہ نظامی پریس سے ١٣٤٣ھ میں شائع کیا اور عازمین حج و زیارات کی خدمت میں ارسال کرتے رہے ۔یہ دونوں رسالے چھوٹی سائز میں ٢١٢ صفحات پر مشتمل ہیں ۔

٥۔ تحفة الابرار

ساٹھ صفحات کی یہ کتاب آپ کے والد ماجد ''مولانا سید علی صاحب قبلہ طاب ثراہ '' کی سوانح عمری پر مشتمل ہے جو مطبع قیصر پٹنہ سے شائع ہوئی ۔

٦۔ مواعظ المتقین

یہ کتاب عربی زبان میں ماہ رمضان کے ٣٥ مواعظ پر مشتمل ہے ، ان مواعظ میں جن کتابوں سے استفادہ کیاگیا ان میں مفتی سید محمد عباس صاحب طاب ثراہ کی کتاب '' منابر الاسلام '' کو خاص اہمیت حاصل ہے ۔ کتاب کے آخر میں ایک خاتمہ ہے جو علم و علماء کی فضیلت پر مشتمل ہے ، اس خاتمہ میں بعض علمائے سلف کے حالات زندگی بھی مرقوم ہیں جن میں آپ کے والد ماجد بھی شامل ہیں انہیں کے مختصر ذکر سے کتاب اختتام پذیر ہوتی ہے ۔

یہ کتاب ١٨ ذی الحجہ کو مکمل ہوئی ۔ خاتمة الطبع کی عبارت سے معلوم ہوتاہے کہ اس کی طباعت میں حسین آباد ضلع مونگیر کے رئیس مرحوم نواب دلدار علی خاں کا بھرپور تعاون حاصل رہا۔پوری کتاب ٢٥٨صفحات پر مشتمل ہے ۔

٧۔ لواعج الاحزان جلد اول و دوم

مجالس پر مشتمل اردو زبان میں یہ کتاب آج بھی مقبول خاص و عام ہے اور مقبولیت کے پیش آج بھی مسلسل شائع ہورہی ہے۔

 

 

لواعج الاحزان

لواعج الاحزان ان کی دونوں جلدیں غیر منقسم ہندوستان کے شہر شہر اور دیہات دیہات میں پہنچیں اور ان کی وجہ سے مصنف علام کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا یہ ان مجلسوں کے مجموعے ہیں جو مصنف علام نے وقتا فوقتا پڑھی تھیں۔

لواعج الاحزان جلد اول کے دیباچے میں تحریر فرمایا ہے کہ جب آپ بعد فراغت تحصیل علوم عقلیہ و نقلیہ لکھنؤ سے اپنے وطن میں تشریف لائے تو مومنین کے اصرار سے اپنے والد ماجد کی بنائی ہوئی مسجد میں نماز جمعہ و جماعت شروع کی۔ ماہ صیام کی نماز جمعہ میں اطراف و جوانب سے مومنین دور دور سے آنے لگے اور اشاعت دینی میں روز بروز ترقی ہونے لگی لگی ہے نماز دو روزانہ وعظ ہوتا تھا۔ لوگ پابند صلاۃ و صوم و احکام اور تارک معاصی مناہی ہوگئے۔

۱۳۱۵ھ میں احباب کے اسرار سے آخر میں مصائب بھی بیان کرنے لگے اور یہ التزام برابر جاری رہا محرم ۱۳۱۶ ھ میں آپ نے اپنے یہاں مجالس کا سلسلہ ڈالا جو اب تک جاری ہے تب آپ کو روایات فضائل اور مصائب جمع کرنے کا شوق ہوا۔ چار سال میں میں کتاب لواعج الاحزان جلد اول مرتب ہوئی۔ اس کا تاریخی نام مظہر المصائب ہے۔

 

جلد اول میں چہاردہ معصومین علیہم السلام کے حالات کے جدول بھی دیے ہیں علاوہ بحرین آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بارہویں امام علیہ السلام تک کا پورا شجرہ بھی کئی صفحات میں گل دستوں کی شکل میں دیا ہے۔ اس میں یہ التزام رکھا ہے کہ معصومین کی جن اولادوں کے بارے میں اتفاق رائے ہے ان کا نام گلاب کی شکل کے حلقے میں لکھا ہے اور جن کے بارے میں اختلاف ہے ان کا نام دائرے میں دیا ہے۔

جس میں چہاردہ معصومین کی ولادت کی محفلیں اور تیرہ معصومین کی وفات و شہادت کی مجلسیں شامل ہیں امام حسین علیہ السلام کی مجالس میں ترتیب واقعات کا لحاظ رکھا گیا ہے۔

۱۳۱۹ھ کے بعد کی مجلسیں آپ کی دوسری جلد میں مرتب کرتے جاتے تھے خیال تھا کہ یہ جلد بھی پہلی جلد کی طرح زخیم ہوگی لیکن فالج کی وجہ سے یہ ارادہ پورا نہ ہو سکا اور جب صحت سے مایوسی ہوگی تو تقریبا چالیس مجلسوں پر اسے تمام کرنا پڑا۔

جناب اب سید محمد مہدی صاحب مفتی سید محمد عباس صاحب کے شاگرد تھے اور استاد ہی کی طرح عربی اور فارسی ادب میں مہارت تامہ رکھتے تھے۔ تحفہ الابرار میں جا بجا حالات و واقعات کی مناسبت سے اپنے اشعار درج کیے ہیں۔

مزید دیکھیں

علمی مرتبہ

آپ کا مرتبہ ، علماء و مجتہد ین کی نظر میں

١۔ سر کار ناصر الملة اعلی اللہ مقامہ نے لواعج الاحزان جلد اول کی تقریظ میں مصنف مرحوم کے لئے حسب ذیل القاب استعمال کئے ہیں :

العالم العامل ، والبارع الکامل ، المعقود علیہ الاخامل ، المشدود الیہ رحال الزوامل ، سباق غایات الفضل والکمال ، ورکازرایات السبق فی ارشاد الضلال ، المتعب جسدہ فی طاعة الرب المتعال ، المنضی بدنہ للعبادة فی اناء النھر واللیال ، الیف الورع والتقی وحلیف الرشد والھدی الخائف مقام ربہ رب السماوات العلی ، الناھی نفسہ عن الھوی ، ملاذ المجتدی ومنار المھتدی ، المعصف معاقد الود العھدی ، جناب المولوی السید محمد مھدی ایدہ اللہ الابدی بطولہ الصمدی

٢۔ باقر العلوم مولانا سید محمد باقر صاحب طاب ثراہ نے اپنی تقریظ میں ان کے لئے یہ لکھا ہے :

وھو البارع القمقام ، زین اللیالی والایام ، الموفق الموید ، المسدد من لدن الملک العلام ، الناشر لمناقب الائمة البررة الفخام ، المھدی لزمر الذاکرین لفضائلھم و مصائبھم ما یقربھم الی اللہ الزلفی و یبغلھم الی دار السلام ، والمشارک فی اجرھم النزیل علی مر الدھور والاعوام و کر الشھور والایام ، زین الندی ، وردی الصدی ، حلیف الشرف المھدی سمی الامام الغائب المنتظر المھدی ، جناب المولوی السید محمد مھدی جعلی اللہ تعالی ناصر لکل ھاد واسوة لکل مھدی

٣۔ سرکار نجم العلماء نے یہ القاب تحریر فرمائے :

البارع الغطریف والسمیدع العریف ، الناھج مناھج التحقیق ، والسالک مسالک التدقیق ، المشمر عن ساق جدہ الی شواھق الحق و قببہ والمضمر قلاص عزیمتہ الی جواد الصدق وسننہ المذکر ماثر اھل الذکر بمصاص نیتہ ، والمشھر معالی امورھم علی تفاقم بلیتہ المبید خضرآء الجھل بمومض بیانہ والممیط دجنة الغی بمشرق تبیانہ ، الراغب عن خزعبلات الزیغ واباطیلہ ، الجانح الی مواعظ الرش و نصحہ وقیلہ ، المکابد شوائب الکرب ابتغاء لمرضاتہ والمقاسی نؤالحدثان ابانة لایاتہ

شعر :

حلیف المزایا الغر من زمن المھد

اخا المجد والعلیا محمدن المھدی

٤۔ سرکار مرزا محمد تقی صاحب مجتہد العصر ( سامرہ ) نے مولانا مرحوم کے علمی مدارج کودیکھتے ہوئے عراق کے زیارتی سفر کے دوران اجازہ ٔ روایت اور امور حسبیہ عطا فرمایا تھا ۔

٥۔ ہندوستان کے مجتہدین عظام میں فقیہ اہل بیت مولانا سید محمد باقر صاحب طاب ثراہ اور سرکار عماد العلماء میر آغا صاحب طاب ثراہ نے اجازہ امور حسبیہ مرحمت فرمایا تھا ۔

۶۔ علامہ شیخ آقا بزرگ تہرانی نے آپ کا تذکرہ سید جلیل کہہ کر کیا ہے۔

مزید دیکھیں

خطابت اور شاعری

بحیثیت خطیب :

خطابت بحیثیت خطابت بے حد اہم اور انتہائی ذمہ دارانہ فن ہے لیکن اگر اس کے ساتھ تبلیغ دین اور قوم و ملت کی خدمت کا جذبہ شامل ہوجائے تو اس کی ذمہ داری اور اہمیت میں کئی گنا اضافہ ہوجاتاہے ۔دنیاوی خطابت اور مذہبی خطابت میں بنیادی فرق یہ ہے کہ دنیاوی اور سیاسی خطابت کو سننے والے صرف تماشائی ہوتے ہیں ، وہ خطیب کے مطالب پر غور و خوض نہیں کرتے بلکہ صرف لہجہ اور انداز دیکھتے ہیں جس کا لہجہ اوراندازجتنا اچھا ہوگا وہ اتنا ہی اچھا خطیب ہوگا لیکن مذہبی خطابت میں خطیب کے زیر منبر بیٹھنے والے افراد صرف تماشائی نہیں ہوتے ، ان کے پاس ایک ایمان اور عقیدہ ہوتا ہے ، وہ اپنے ایمان و عقیدہ کی تقویت یا اصلاح کے لئے زیر منبر بیٹھتے ہیں اسی لئے وہ خطیب کے انداز اور لہجے سے زیادہ اس کے مطالب پر اپنی توجہات مبذول رکھتے ہیں ۔ اس اعتبار سے ایک مذہبی خطیب ، اپنی خطابت کے دوران صرف ایک گھنٹے کا ذمہ دار نہیں ہوتا بلکہ زیر منبر بیٹھے ہوئے سیکڑوں لوگوں کے ایمان و عقیدہ کا ذمہ دار ہوتاہے ، اس کے بیان کا اثر کئی نسلوں تک قائم رہتاہے ۔

مولانا سید محمد مہدی صاحب طاب ثراہ بھی ایک خطیب بلکہ برجستہ خطیب تھے ، حالات کے پیش نظر اس فن کی ذمہ داری اور اہمیت سے بخوبی واقف تھے ، اسی لئے آپ نے میدان خطابت میں دوسرے سے بازی لے جانے کے لئے قدم نہیں رکھا بلکہ خطابت کو اس لئے اختیار کیا کیوں کہ آپ نے خطابت کی ضرورت محسوس کی ۔ چنانچہ آپ نے ایسے مقامات اور علاقوں میں مجلسیں پڑھیں اور موعظہ کے قالب میں تقریریں کیں جہاں لوگ دین و شریعت سے خاطر خواہ آشنا نہیں تھے۔

آپ کے حالات زندگی کا بغور مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ آپ کو زیر منبر بیٹے ہوئے افراد کے ایمان و عقیدہ کا خاص خیال تھا اسی لئے آپ مستند اور ٹھوس مطالب بیان کرتے تھے ، آپ کے اسی مستند اور معتبر بیان کی وجہ سے وطن کے علاوہ دور دراز کے لوگ آکر آپ کی تقریریں سنتے تھے اور مستفیض ہوتے تھے۔

عہد حاضر میں خطابت کی جو حالت ہے وہ ارباب نظر سے پوشیدہ نہیں ، بعض لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ خطابت میری شخصیت کی پہچان ہے لہذا میں اس میں مسائل اور موعظہ بیان کر کے اپنی شخصیت کو دائو پر نہیں لگا سکتا ۔ ظاہر ہے ایسی صورت میں مذہبی اور سیاسی خطابت میں کیا فرق رہ جائے گا ۔ اس عنوان سے مولانا محمد مہدی صاحب قابل قدر اور لائق صد تحسین ہیں ، انہوں نے اپنی خطابت میں آخرت سازی کا نمونہ پیش کیاہے ، ان کی خطابت کا مقصد دنیا سازی اور لوگوں کی واہ واہ نہیں تھا بلکہ آخرت سازی تھا اسی لئے آپ اپنے بیان میں دینی و شرعی مسائل اور موعظہ بیان فرماتے تھے۔لواعج الاحزان اس کی واضح مثال ہے ، جس کی شان نزول ہی موعظہ ہے ، پہلے آپ لوگوں میں شرعی مسائل بیان کرتے تھے جسے سننے کے لئے دور دراز علاقوں سے لوگ آتے تھے بعد میں احباب کے اصرار پر اس میں مصائب بھی شامل کر لیا جوبعد میں کتاب کی شکل میں '' لواعج الاحزان '' کے نام سے شہرۂ آفاق ہوئی ۔

 

بحیثیت شاعر

مولانا محمد مہدی صاحب طاب ثراہ خطیب ہونے کے ساتھ ساتھ برجستہ شاعر بھی تھے ، آپ کو فارسی نظم و نثر پر بھرپورمہارت حاصل تھی ۔ آپ کی کتاب ''لواعج الاحزان '' میں نظم و نثر دونوں نمونے جابجا ملاحظہ کئے جاسکتے ہیں ، آپ نے اسی کتاب میں حمد و نعت کو نثر کے بجائے نظم میں پیش کیاہے ، یہ چند اشعار ملاحظہ فرمائیے :

ھست گل گلشن حمد حکیم

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

نعت نبی رنگ طرب خیزآں

مدح علی بوئے دل آویز آں

 

رنگ چہ رنگی کہ جہاں تازہ کرد

برزخ خورشید و قمر غازہ کرد

 

بوئے چہ بوئی کہ بود جان خلد

تازہ از آں سنبل و ریحان خلد

 

غنچہ دل ہائے ہمہ مومناں

چوں گل ترخرم و خنداں ازاں

آپ واقعات و حوادث کو بڑے خوبصورت پیرائے میں پیش کرتے تھے ، چنانچہ مظفر پور میں اپنے والد ماجد ''مولانا سید علی صاحب طاب ثراہ '' کی دعا سے ہلال عید ظاہر ہونے کے واقعہ کو لکھنے کے بعد حسب ذیل اشعار لکھے ہیں:

دعای او چو برگرد وں رسیدہ

حجاب ابر شد ازوی د ریدہ

 

دعا را بر فلک رفتن ضرور است

شگافد ابر گر ازوی چہ دور است

 

چہ حیرت شق ابر ے او اگر کرد

کہ جدش مصطفی شق القمر کرد

 

عجب نے بہر او شد ابر منشق

کہ بہر جد او نہ چرخ شد شق

 

کرامتھا کہ از حقش عطا شد

ھمہ از فیض روح مصطفی شد

 

بر ایمان ھر کہ دارد استقامت

عجب نبود از و خرق و کرامت

 

مزید دیکھیں

وفات

۱۳۴۰ھ میں آپ کے بھائی حصہ جسم پر فالج کا اثر ہوگیا علاج سے کچھ فائدہ ہو اور آپ اس قابل ہو گئے کہ پھر مظفر پور جا سکیں۔ لیکن دو تین برس بعد مرض نے پھر شدت اختیار کر لی اور آپ وطن واپس آگئے۔ سرکار شب 24 جمادی الثانی ۱۳۴۸ھ وقت عشاء آپ نے وطن مالوف میں رحلت فرمائی اور اپنے برادر نسبتی حاجی صاحب کے تعمیر کردہ امام باڑہ کے صحن میں دفن ہوئے۔

 

مزید دیکھیں
تصاویر
مولانا سید محمد مهدی بهیک پوری
صاحب لواعج الاحزان
مولانا سید محمد مهدی بهیک پوری
مولانا سید محمد مهدی بهیک پوری
صاحب لواعج الاحزان
4ڈاؤن لوڈز
زوم
ڈاؤن لوڈ
شیئر کریں
مولانا سید محمد مهدی بهیک پوری
متعلقہ لنکس
دیگر علما
کامنٹ
اپنا کامنٹ نیچے باکس میں لکھیں
بھیجیں
نئے اخبار سے جلد مطلع ہونے کے لئے یہاں ممبر بنیں
سینڈ
براہ کرم پہلے اپنا ای میل درج کریں
ایک درست ای میل درج کریں
ای میل رجسٹر کرنے میں خرابی!
آپ کا ای میل پہلے ہی رجسٹر ہو چکا ہے!
آپ کا ای میل کامیابی کے ساتھ محفوظ ہو گیا ہے
ulamaehin.in website logo
ULAMAEHIND
علماۓ ہند ویب سائٹ، جو ادارہ مہدی مشن (MAHDI MISSION) کی فعالیتوں میں سے ایک ہے، علماۓ کرام کی تصاویر اور ویڈیوز کو پیش کرتے ہوۓ، ان حضرات کی خدمات کو متعارف کرواتی ہے۔ نیز، اس سائٹ کا ایک حصہ ہندوستانی مدارس اور کتب خانوں، علماء کی قبور کو متعارف کروانے سے مخصوص ہے۔
Copy Rights 2024