مولانا سید حامد حسین عشروی ابن سید غلام حسنین صاحب موضع عشری خرد (ضلع سیوان) کے رہنے والے تھے ۔ اور اگرچہ بعد میں انہوں نے گونڈہ اور بہرائچ کو اپنا وطن بنا لیا تھا لیکن اپنے نام کے ساتھ ہمیشہ عشروی لکھتے تھے ۔
والدین کے سایہ سے کمسنی ہی میں محروم ہوگئے تھے ۔ آپ کے بڑے بھائی حکیم سید محمد بشیر صاحب (صدرالافاضل) اور چھوٹے بھائی مولانا سید اظہار الحسنین صاحب (صدرالافاضل) تھے ۔ والدین کی وفات کے بعد چچا اور چچی نے ان تینوں بھائیوں کی اس شفقت اور محبت سے پرورش کی جس کی مثال بہت کم ملتی ہے ۔
مولانا کی ابتدائی تعلیم اپنے بڑے بھائی سے حاصل کرنے کے بعد کھجوہ گئے جہاں مولانا سید محمد نقی صاحب سے عربی صرف و نحو اور منطق کی ابتدائی کتابیں پڑھیں ۔ اس کے بعد سنہ 1911 سے 1914 تک سلطان المدارس میں رہے۔ حالات نے ساتھ نہ دیا تو سنہ 1915 میں مدرسہ عالیہ رامپور میں داخلہ لیا ۔ وہیں سے 1919 میں درس نظامی کی اعلی سند لی ۔ 1920 میں وہیں رہ کر پنجاب یونیورسیٹی سے مولوی فاضل اور 1921 میں منشی فاضل کی سند حاصل کیں ۔
سنہ 1922 میں یوپی گورمنٹ کے شعبہ تعلیم میں ملازمت شروع کی اور ایٹہ کے گورمنٹ ہائی اسکول میں عربی و فارسی کے استاد مقرر ہوئے ۔ پانچ سال بعد گونڈہ پہنچے جہاں تقریباً بیس سال قیام رہا ۔ اس عرصہ میں گونڈہ میں اپنی جد و جہد سے ایک نہایر خوبصورت امام باڑہ بنوایا جس کا نام حسینیہ اتحاد المومنین رکھا ۔
گونڈہ سے دیوریا ٹرانسفر ہوا جہاں چھ سال رہے اور پھر بہرائچ بھیجے گئے ۔ بہرائچ میں محلہ سید واڑہ کے حسینیہ قزلباش کو کسٹوڈین کے قبضے سے واگذار کرایا۔ اور کربلا اور اس کی بیش قیمت اراضی جو غاصبوں کے قبضے میں تھی اور عمارت تباہ ہوچکی تھی اس کو ان لوگوں کے قبضے سے نکال کر از سر نو تعمیر کرایا اور مومنین کے حوالے کردیا ۔ بہرائچ میں تیرہ سال فرائض منصبی انجام دینے کے بعد 2 اپریل 1962 کو ریٹائرڈ ہوئے ۔ دوران تعلیم خصوصیت سے سرکار باقر العلوم اور سرکار ظہیر الملۃ کی سرپرستی حاصل رہی اور سرکار ناصر الملۃ اور سرکار نجم العلماء بھی بہت محبت فرماتے تھے ۔
حج و زیارات
سنہ 1930 اور 1933 میں اور اس کے بعد تیسری بار عتبات عالیات کی زیارتیں کیں۔ اور دو بار حج سے بھی مشرف ہوئے ۔
شادی اور اولاد
آپ نے دو شادیاں کیں ۔ آپ نے آٹھ لڑکے اور تین لڑکیاں یادگار چھوڑیں ۔