لسان العلما مولانا سید آغا مہدی صاحب خاندان اجتہاد کے مایہ ناز رکن تھے ۔ 19 شوال 1316 ھ کو لکھنو میں پیدا ہوئے ۔ موصوف نے اپنی زندگی کے تمام پہلوؤں کو با ضابطہ قید تحریر میں لاکر آئندہ کے ریسرچ اسکالرز کے لئے ایک نادر ماخذ مہیا کردیا ہے جس سے ان کی تعلیم و تربیت ، خاندانی حالات اور ذاتی سوانح کے علاوہ تبلیغی خدمات کا پورا نقشہ نظر کے سامنے آجاتا ہے ۔
اخلاقی صفات
آپ بہت ہی با اخلاق و منکسر مزاج اور سادہ تھے ۔ ہمیشہ سادہ زندگی بسر کی ۔ عالم باعمل تھے ۔ اپنا کام اپنے ہاتھوں سے انجام دینا پسند کرتے تھے ۔
تصنیفات
آپ نے مضمون نگاری بھی اوائل عمر شروع کردی تھی ۔ نامکمل فہرست مضامین میں 1162 مضامین کے نام درج ہیں ۔
آپ کی تصنیفات کی فہرست 227 کتابوں پر مشتمل ہے ۔ جن میں سے بعض کتابیں کئی کئی جلدوں میں ہیں ۔ اس طرح مجموعی طور سے 291 کتابیں ہوجاتی ہیں ۔ ان میں سے تقریبا 120 غیرمطبوعہ ہیں ۔ باقی (بہ استثنائے چند) آپ کی لائبریری میں محفوظ ہیں ۔
اودھ پنچ لکھنو میں بھی آپ کے مقالے چھپتے رہے ۔ رسالہ الواعظ لکھنو کے 16 سال مدیر رہے ۔ جب 27 محرم 1380 کو آپ نے کراچی جانے کے لئے لکھنو چھوڑا تو یہ سلسلہ منقطع ہوا۔
زیارات عتبات عالیات
زیارت عتبات عالیات سے متعدد بار مشرف ہوئے ۔
قومی خدمات
آپ نے سات سال کی عمر سے ذاکری شروع کی اور 30 ذی الحجہ 1390 ھ تک 7819 مجلسیں پڑھیں ۔ یہ تفصیلات دو جلدوں میں محفوظ ہیں ۔
مجالس اور تبلیغ دین کے سلسلے میں شیعی دنیا کے 166 شہروں اور بستیوں میں گئے ۔
22 سال تک لکھنو کی مسجد تحسین علی خاں میں فرائض امامت فی سبیل اللہ انجام دئیے اور ہر اتوار کو موعظہ فرماتے تھے ۔
شیعہ کالج لکھنو کے قیام کے بعد اس کے آرگن الصراط کی مجلس ادارت میں شریک رہے ۔
پاکستان میں آٹھ دس مسجدیں بنوائیں ۔
وفات
آخر عمر میں گوشہ نشینی اختیار کر لی تھی ۔ 1399 ھ میں آنکھوں کی بصارت نے ساتھ چھوڑ دیا ۔ 1402 ھ میں دونوں آنکھوں کا ایک ساتھ آپریشن ہوا جو کامیاب رہا ۔ لیکن چالیس دن بعد سجدہ کرنے کی وجہ سے ایک آنکھ ضائع ہوگئی ۔ صرف ایک آنکھ سے 14 – 14 گھنٹہ کام کر کے اپنے تصنیفات کو مکمل کرنے کی دھن رہی ۔ تاریخ لکھنو کا تیسرا حصہ کتابت کے مراحل سے گذر رہا تھا کہ آپ نے داعی اجل کو لبیک کہا ۔
5 ذی القعدہ 1406 ہجری روز شنبہ 9 بجے صبح ہارٹ اٹیک ہوا۔ 6 ذی القعدہ کو شام کو اس دار فنا سے عالم بقا کی طرف رحلت فرمائی ۔