مولانا حکیم سید ابوالحسن صاحب ابن سید مقبول حسین صاحب کی ولادت 1306 میں وطن مالوف گوپال پورضلع سارن (اب ضلع سیوان ) بہار ہندوستان میں ہوئی ۔ ابھی بچپن تھا کہ والدین کے سایہ سے محروم ہو گئے اور آپ کے چچا سید محبوب حسین صاحب نے آپ کی پرورش کی۔ ابتدائی تعلیم وطن میں ہوئی جہاں فارسی پڑھی۔ پھر کھجوا گئے جہاں الحاج مولوی سید محمد نقی صاحب کے مشورہ سے عربی شروع کی اور میزان منشعب پڑھی پھر وطن گئے اور عربی کی ابتدائی کتابیں پڑھیں۔ اس کے بعد آپ لکھنؤ گئے اور مدرسہ سلطان المدارس میں داخل ہو گئے ۔ مختلف تحریروں اور بیانات کے تقابل سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ ۱۹۰۸ء کے لگ بھگ لکھنؤ گئے ہوں گے ۔
آپ ۳۳۸اھ میں مدرسہ سے فارغ ہوئے اور صدر الا فاضل کی اعلی سند حاصل کی۔ آپ کے اساتذہ میں جناب باقر العلوم سید محمد باقر صاحب، جناب ہادی الملۃ سیدمحمد ہادی صاحب اور جناب سید رضا صاحب طاب ثر اہم خاص طور سے قابل ذکر ہیں ۔ دوران تعلیم جناب باقر العلوم اور جناب ہادی الملة اعلی اللہ مقامہما آپ پر بہت شفقت فرماتے تھے اور جناب باقر العلوم نے اپنے صاحبزادگان جناب سید محمد صاحب اور جناب سید علی صاحب کی تعلیم آپ کے سپرد کر دی تھی (یہ دونوں حضرات بعد میں یکے بعد دیگرے سلطان المدارس کے پرنسپل ہوئے)۔
قیام سلطان المدارس کے دور میں آپ نے جناب مولانا حکیم سید مظفر حسین صاحب سے طب کا علم حاصل کیا اور ان کے مطب میں رہ کر علمی تجربہ حاصل کیا۔ جناب حکیم سید مظفر حسین صاحب مرحوم نے آپ کو ۱۸ ربیع الاول 1۳۳۹ ھ میں اجازه طب مرحمت فرمایا۔
سلطان المدارس سے فارغ ہونے کے بعد جناب باقر العلوم کے حکم سے آپ جناب حاجی سید حسن صاحب مرحوم (رئیس لوہا منڈی، آگرہ) کے بچوں کی تعلیم کے لئے آگرہ چلے گئے اور دو سال وہاں مقیم رہے۔
آگرہ سے 1341 ھ کے قریب مولانا سید محمد شبر صاحب (مدرس اعلی ، مدرسه ناصر یہ ، جون پور) کی دعوت پر آپ مدرسہ کے مدرس دوم کی حیثیت سے جون پور آگئے ۔ اور یہیں اپنا مطب بھی قائم کیا ۔
۱۳ رجب المرجب 1344 ھ کو مولانامحمد مصطفی صاحب جوہر مدرسہ عباسیہ (پٹنہ) کے مدرس اعلی ہوئے تو آپ نے ابوالحسن صاحب مرحوم کو نائب مدرس اعلی کی حیثیت سے پٹنہ بلا لیا۔ یہاں آپ نے پچھم دروازہ میں مطب شروع کیا۔ جب جنوری ۱۹۳۳ء کے زلزلہ میں مدرسہ کی دولی گھاٹ کی عمارت گر گئی تو نواب سیدعلی سجادصاحب مرحوم نے گلزار باغ کی ایک وسیع عمارت میں مدرسہ کو منتقل کیا تو ابوالحسن صاحب کا مطب بھی گلزار باغ آگیا۔
۲۱ مئی ۱۹۴۰ ء کو مدرسه تعطیلات گرما کے لئے بند ہونے والا تھا اور مدرسین کی تنخواہیں تقریبا چھ مہینے سے باقی چلی آرہی تھیں ۔ لہذا تمام مدرسین نے اجتماعی طور پر استعفی دے دیا۔ مدرسہ عباسیہ ختم ہوگیا۔
ابوالحسن صاحب مرحوم نے اس کے بعد کچھ دنوں سیوان میں مطب کیا۔ ۱۹۴۲ء میں ہلور ضلع بستی (اب ضلع سدھارتھ نگر ) میں بطور امام جمعه و جماعت تشریف لے گئے ۔ یہ اس وقت پانچ ہزار سادات کی آبادی والا قصبہ تھا اور ابوالحسن صاحب وہاں انتہائی عزت و احترام اور محبت و عقیدت کی نظرسے دیکھے جاتے تھے۔ جنوری ۱۹۴۸ء میں اپنے بڑے بھائی سیدلطیف حسین صاحب کے انتقال کے بعد آپ امور زمینداری سنبھالنے کی غرض سے وطن واپس آگئے ۔ اور اپنے فرزند علامہ سید سعید اختر رضوی صاحب کو اپنی جگہ ہلور بھیج دیا۔
1949 میں آپ عراق و ایران کی زیارتوں سے مشرف ہوئے۔
علامہ سید سعید اختر رضوی نے اپنے والد مولانا ابوالحسن صاحب کو دسمبر1959 میں دار السلام بلایا اور 1971 میں اپنے والد کے ساتھ حج کا شرف حاصل ہوا ۔
ابوالحسن ٍصاحب مرحوم نے اپنے صرف خاص سے وطن میں ایک عید گاہ تعمیر کرائی۔ (پچاس ساٹھ سال کے عرصہ میں وہ عمارت بالکل برباد ہوگئی تھی، اس لئے 1408 میں علامہ سعید اختر صاحب نے اس کو پرانی بنیادوں پر دوبارہ بنوایا ) ۔ وطن ہی میں آپ نے ایک پل تعمیر کرایا تھا۔ ہلور کے قیام کے دوران آپ نے وہاں ایک پژاوہ لگوایا اور اس سے وہاں کی جامع مسجد کی عمارت کی تکمیل کرائی ۔ ابھی مینارے بننے باقی تھے کہ آپ وطن واپس آ گئے اور یہ کام ان کے فرزند علامہ سید سعید اختر صاحب کی سعی سے انجام پذیر ہوا۔
وفات
6 ذی الحجہ 1394 ھ روز شنبہ سوا چار بجے شام کو آپ نے گوپال پور میں رحلت فرمائی ۔ تجہیز و تکفین دوسرے روز گیارہ بجے دن میں ہوئی۔