کتابیں
تفسیر قرآن
مولانا مرحوم نے لاہور میں مختلف مقامات پر 25 برس تک تفسیر قرآن کے دروس دیے۔ تفسیر قرآن میں مولانا کا مطالعہ بہت وسیع اور نظربہت گہری تھی۔ تفسیر قرآن کے تاریخی ارتقاء وتکامل پر ان کی نظر غائر تھی۔ اسلوب تفسیر ان کی رائے مستند تسلیم کی جاتی تھی۔ اسکے باوجودتفسیر کے میدان میں وہ قلم اُٹھاتے ہوئے احتیاط سے کام لیتے تھے۔ ان کاکہناتھاکہ تفسیر جیسے اہم موضوع پر پڑھے لکھے آدمی کو ساٹھ برس کے سن کے بعد قلم اٹھانا چاہیے۔ یہ وہ وقت ہوتاہے کہ جب انسان کی فکر پختہ اور مطالعہ عروج پر پہنچ چکاہوتاہے۔ تفسیر پرانہوں نے جوکچھ لکھا ان میں سے کچھ کام یہ ہیں۔
انوار الآیات: یہ قرآن کریم کی آیتوں کی مختصر اور مفید تفسیر ہے۔ اس کو مولانا مرحوم نے جوانوں کے روزمرہ مطالعہ کے لیے تحریرفرمایا۔ اس تفسیر کے مخاطب عام طورسے ہائی اسکول اورانٹرکالج کے نوجوان طلبہ و طالبات ہیں۔(مطبوعہ)
دستور اخلاق: سورہ حجرات کی مختصر اور مفید تفسیر۔ اسکول اور کالج کے نوجوانوں کے روزمرہ مطالعہ کے لیے لکھی گئی۔ (مطبوعہ)
تفسیر مرتضوی: تفسیر قرآن پر مولانا مرحوم کا یہ کام اردو زبان میں اپنی نوعیت کا منفرد، سب سے پختہ اور فکرانگیز کام ہے جوانہوں نے اپنے نظریہ کے مطابق اپنی برکت عمر کے ساٹھویں سال کے اختتام پر شروع کیا لیکن ابھی وہ سورہ مائدہ کی تفسیر ہی مکمل کرپائے تھے کہ محبوب حقیقی کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس کے دربار میں حاضر ہوگئے اس وجہ سے ان کی یہ تفسیر مکمل نہ ہوپائی۔ مکمل تفسیر نہ ہونے کے باوجود اپنی انفرادیت ، موضوعات کے احاطہ، معلومات کی وسعت و گہرائی نیز فکری رچاؤ کے لحاظ سے یہ اُردو زبان میں بے مثال تفیسر ہے۔
حدیث
مولانا مرحوم کے مطالعات میں حدیث کو ایک اہم مقام حاصل تھا۔ قرآن حکیم کے بعد حدیث انکے مطالعہ کا محور، ان کے فکرونظر کی بنیاد پر نیز ان کے عمل کی اُساس تھی اس لیے مرحوم نے حدیث پر اُردو اور عربی دونوں زبانوں میں بہت اہم اور وقع تحریری کام انجام دےئے ہیں ان میں سے چند یہ ہیں:
تاریخ تدوین حدیث و تذکرہ محدثین شعیہ: عہد نبوی سے لے کر علامہ مجلسی کے دور تک مختلف ادوار میں حدیث کے تحریری ذخیروں، حدیث مکتوب کے مجموعوں کی حفاظت اور نقل وکتابت و تدوین حدیث کے ارتقائی مراحل کے جائزہ پرایک مضبوط اور تاریخی دستاویز کے طورپر لکھی جانے والی یہ کتاب اس موضوع پر پہلی مطبوعہ دستاویز ہے۔
کتاب المومن: جن کتابوں کو تاریخ میں اصول اربعاۃ کے نام سے پہنچاناجاتاہے۔ کتاب المومن انہی میں سے ایک ہے۔ یہ کتاب تیسری صدی ہجری کی تحریر ہے۔ یہ ان کتابوں میں سے ایک ہے جواحادیث کے مصادراولیہ میں شمارہوتی ہے۔ یہ کتاب مخطوط طورپردنیا کے بہت سے کتابخانوں میں موجود تھی لیکن محققین اسے منصۂ شہود پر نہیں لائے تھے۔
نہج البلاغہ، ترجمہ و شرح: حدیث کے ذیل میں مولانا مرحوم نے نہج البلاغہ کے ترجمہ اور شرح پر بھی کام کیا۔ ان میں سے ایک کام جو مولانا مرحوم نے مولانا رئیس احمد جعفری اور مولانا سید نائب حسین نقوی مرحومین کے ساتھ مل کر گروہی طورپر انجام دیا وہ مرحوم کی زندگی ہی میں شائع ہوا اور مقبول عام بھی ہوا۔ اب تک اس کے تقریباً چالیس ایڈیشن چھپ کر ختم ہوچکے ہیں۔
اسکے علاوہ مولانا مرحوم نے نجی طورپر نہج البلاغہ کا ترجمہ اور شرح تحریر فرمائی جو مخطوط حالت میں موجودہے۔
نہج من بلاغة الامام الصادق: حدیث کے ذیل میں امام جعفر صادق ؑ کے خطبوں کا ترجمہ اور شرح عربی متن کے ساتھ تحریراور شائع کرنا بھی مولانا مرحوم کاایک وقیع کارنامہ ہے۔
صحیفہ علویہ، ترجمہ وشرح: ہدیہ نیاز کے نام سے مولانامرحوم نے حدیث کے ذیل میں حضرت علی ؑ کی دعاؤں کے مجموعہ صحیفہ علویہ کے متن پر تحقیق، ترجمہ اور شرح کے ساتھ ایک مضبوط مقدمہ تحریرفرما کر شائع کروایا۔ یہ کتاب اس قدر مقبول ہوئی کہ اب تک اس کتاب کے بیسوں ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔
صحیفہ کا ملہ، انتخاب، ترجمہ وشرح: صحیفہ کاملہ حدیث کی کتابوں میں امام زین العابدینؑ کی دعاؤں کے مجموعہ دعاؤں کے مجموعہ پرمشتمل مستند ترین کتاب ہے۔ مولانا مرحوم نے اس کتاب مٰن سے 32 دعاؤں کے انتخاب پر مشتمل ایک مجموعہ مرتب فرما کر ترجمہ اور شرح کے ساتھ شائع فرمایا۔
چہل حدیث: حدیثِ نبوی پر عمل نیز، علما٫ اسلام کی سنت کے احیا٫ کے طور پر مولانا مرحوم نے چالیس ایسی حدیثوں کے متن اور ترجمہ پر مشتمل کئی کتابیں تحریر فرمائیں جن میں سے ایک چہل حدیث کے نام سے شائع ہوچکی ہے اور باقی تحریری طور پر مرحوم کے ذخائر میں موجود ہیں۔
کتاب المقتبس (النخبة من احادیث النبی الخاتم و الائمة): اس مجموعے میں مولانا مرحوم نے الکافی کی طرز پر علمِ اصول دین، امامت، اخلاقیات اور فقہی موضوعات پر ان تمام احادیث کو جمع فرمایا ہے جو ان کے فقہی فتاویٰ کی بنیاد تھیں، نیز ان کے نزدیک اصول حدیث کے معیار پر قابل وثوق و اطمینان تھیں۔ یہ کام بھی مخطوط طور پر ان کے ذخیرۂ علمی کی زینت ہے۔
اوصاف حدیث: حدیث کے میدان میں احادیث کی تحقیق اور درجہ بندی کے موضوع یعنی علم درایت پر علامہ بہائی کی مستند ترین کتاب الوجیزہ کو بنیاد بنا کر مولانا مرحوم نے ایک انتہائی اہم اور فنی دستاویز تحریر فرمائی ہے جو دو مرتبہ شائع ہوچکی ہے۔ یہ کتاب فن درایت میں ایک بنیادی متن اور درسی کتاب کی حیثیت کی حامل ہے۔
عزیزہ فی شرح الوجیزہ: علم درایت پر علامہ بہائی کی کتاب الوجیزة پرمولانا مرحوم نے عربی زبان میں بھی ایک مضبوط شرح تحریرفرمائی جس کا نام عزیزہ فی شرح الوجیزہ رکھا۔ یہ کتاب بھی مخطوط صورت میں محفوظ ہے۔
سیرت
سیرت نبی کریم ﷺ اور اہلبیت اطہار نہ صرف یہ کہ مولانا مرحوم کا اوڑھنا بچھونا اور محورمطالعہ تھا بلکہ یہ ان کی عملی زندگی ، بنیاد اور ان کا اسوہ کامل بھی تھا۔ اس لیے اس موضوع پر مولانا مرحوم نے اُردو دائرہ المعارف میں تحریرکئے جانے والے مقالات کے علاوہ مستقل طورپر بھی تحریری کام انجام دیے۔ اس میں مولانا کے بے شمار علمی و درسی مقالات، تقاریر اور لیکچرز کے علاوہ کتابیں بھی موجود ہیں جن میں سے چند یہ ہیں۔
خطیب قرآن: سیرت النبی ﷺ پر مولانامرحوم کی یہ کتاب در اصل قرآنی آیات کی بنیاد پر تحریرکی گئی ہے۔ مولانا مرحوم نے اس کتاب میں قرآن حکیم میں سیرت النبی ﷺ سے متعلق آیات کریمہ کومرتب فرماکر ان کی تفسیر میں تاریخ و ثائق وروایات کی روشنی میں سیرت النبی ﷺ پرایک مفصل اور قابل قدر کارنامہ انجام دیاہے جو محققین کے لیے قابل تقلید ہے۔ یہ کتاب بیک وقت قرآن حکیم کی موضوعی تفسیر بھی ہے سیرت النبی ﷺ بھی۔
رسول ﷺ واہلبیت رسول: چودہ معصومین ؑ کی سیرت پر یہ ایک گروہی کام ہے جو مولانا مرحوم نے اپنے معاصر محقق مولانا سید علی جعفری مرحوم کے ساتھ مل کر انجام دیا۔ اس کتاب کی پہلی دوجلدیں جو سیرت النبی ﷺ سے حضرت امام علی رضاؑ تک کی حیات و زندگی پرمشتمل ہیں۔ مولانا سید علی جعفری مرحوم کی کاوش کا نتیجہ ہیں۔ اس کی تیسری جلد جس میں حضرت امام علی نقی ؑ، حضرت امام محمد تقی ؑ، حضرت امام حسن عسکری اور حضرت امام مہدی کا تذکرہ ہے، مولانا مرحوم کے تحقیقی معاملات کا نتیجہ ہے۔ اس تحقیقی اور فکری خدمت میں مولانا مرحوم ائمہ اہلبیت کے دور کے علمی کارناموں نیز ان کے ان خاص شاگردوں کے تذکرہ اور تعارف پرزیادہ زور دیا ہے جو اس عہد میں علمی، فقہی، تفسیری، کلامی اور دوسرے میدانوں میں اہم کارنامے انجام دیتے رہتے ہیں۔
آخری تاجدار اُمت: امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف پر اہلسنت و شعیہ مصادر سے تحقیق پرمشتمل مولانا مرحوم کے ایک اُستاد کی کتاب کا اُردو ترجمہ ہے جو اپنی اہمیت کے سبب کئی بار شائع ہوچکاہے۔
تاریخ وتذکرہ
تاریخ اور تذکرہ جال پر بھی مولانا مرحوم کے کام تاریخی سندکی حیثیت کے حامل ہیں۔ اشارے کے طورپر ہم یہاں ان کے دوکاموں کاتعارف پیش کر رہے ہیں۔
مطلع انوار: یہ کتاب برصغیر میں پاک و ہند کے شیعہ اکابر علماء اور ان کے علمی وثقافتی خدمات کے تذکرہ پرمشتمل ہے۔ اس کتاب کی جمع آوری کے سلسلے میں مولانا مرحوم نے انتہائی محنت کی اور شب و روز اس سے منسلک رہے۔ آپ کی یہ کتاب مولانا محمد حسین نوگانوی کی تذکرہ بے بہا فی احوال العلماء نامی کتاب کے بعد اُردو زبان میں مذکورہ موضوع پرانتہائی مفید اور اہم کتاب ہے جو سند کے طورپر ہمیشہ باقی رہے گی۔
مولانا مرحوم کی اس کتاب کا فارسی ترجمہ مطلع انوار ہی کے نام سے بنیاد پژوہشہائے اسلامی آستان قدس رضوی (مشہد مقدس) کی طرف سے شائع ہوچکا ہے، نیز مولانا سعید اختر رضوی مرحوم (م۔2002ء) نے بھی اس کتاب سے متعلق استدراک کے طورپر ایک کتاب تحریرکی ہے جس میں اس کتا ب کی اہمیت وافادیت پر روشنی ڈالی ہے۔ ڈاکٹر کریم نجفی ایران میں اس کتاب پرمزید تحقیقات کے ساتھ ایک اور استدراک تحریرفرمارہے ہیں۔
ترجمۂ مقدمہ ابن خلدون: فلسفہ تاریخ میں مقدمہ ابن خلدون ایک سنگ میل کی حیثیت کاحامل ہے۔ مولانامرحوم نے اس کی تاریخی اور فلسفی اہمیت کے سبب اس کا ترجمہ بھی فرمایا جومخلوط حالت میں موجودہے۔
ادب
پاکستان اور ہندوستان کے ادبی اور تحقیقی حلقے مولانا مرحوم کو ادب، لغت اور تاریخ میں آج تک سند مانتے ہیں۔ فارسی، عربی اور اُردو ادب و لغت میں مولانا مرحوم کے علمی اور تدریسی کارناموں کا ذکر مفصل کتاب ہی میں ممکن ہے، اس لیے یہاں ہم اسی بات کے تذکرہ پراکتفاء کرتے ہیں کہ مولانا مرحوم نے لغت اور ادب و تاریخ میں سینکڑوں مقالات اور سوسے زیادہ کتابیں تحریرفرمائیں جن میں سے چند یہ ہیں:
اُردوادب: اُردو ادب میں حیدرعلی آتش، ناسخ، ذوق، مولانا محمد حسین آزاد، مرزا دبیر، میر انیس، اور غالب پرمولانا مرحوم کے تحقیقی کام اُردو ادب میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ خصوصاً غالب اور انیس کی صدسالہ برسی کے موقع پر ان کی طرف سے پیش کئے جانے والے تحقیقی مقالات گہرائی و گیرائی کے حامل ہیں۔ یہ اب تک ادبی اور تحقیقی حلقوں میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔
ادب میں غالبیات ان کا سب سے پسندیدہ موضوع تھا ۔ غالبیات میں مذہب ، فلسفہ، نثر، نظم ، لغت اور تنقید سبھی کچھ موجود ہے۔ غالباً اس لیے مولانا فاضل لکھنوی نے ادب میں غالبیات کو اپنی محنتوں کا مرکز بنایا۔ انہوں نے غالبیات میں بین الاقوامی شہرت حاصل کی۔ غالب کے نثری اور شعری متون کی تحقیق وتدوین ، خصوصاً کلیات فارسی نیز خطوط غالب کی تاریخوں کے تعین کے سلسلہ میں فاضل لکھنوی کے کام انفرادی حیثیت کے حامل ہیں۔
غالبیات: غالبیات پر مولانا مرحوم کے متعدد تحقیقی مقالات عربی اور اُردو میں چھپے ہوئے موجودہیں۔ اسکے علاوہ مولانا مرحوم نے غالب کے تمام نثری اور شعری متون پر عمیق تحقیقی کام انجام دیاہے جو مجلس ترقی ادب لاہور سے شائع ہوا جس میں اردوئے معلی، عود ہندی، اور کلیات غالب (فارسی) شامل ہیں۔ گرچہ سوانح غالب کے موضوع پر آپ کی کوئی لکھی ہوئی کتاب نظر سے نہیں گزری۔ مگر عود ہندی پر لکھے گئے تعارف نامہ سے پتاچلتاہے کہ اس موضوع پر مولانا نے ایک کتاب لکھی تھی جیسا کہ آپ کوخود تحریر فرماتے ہیں: "سوانح غالب کے بارے میں اس سے زیادہ لکھنا یہاں مناسب نہ تھا ۔ میں نے اس موضوع پر مضبوط کتاب لکھی ہے جو عنقریب شائع ہوگی۔"
اس کے علاوہ اُردو ادب میں مولانا مرحوم نے مراثی ، کلیات آتش، مثنویات حالی اور مکاتب محمد حسین آزاد نیز دوسرے شعری اور ادبی متون پر تحقیقی ، تشریح اور تنقیدی کام بھی انجام دےئے جو اُردو ادب میں سندمانے جاتے ہیں۔
فارسی ادب: مولانا نے سالہاسال فارسی ادبیات کی تدریس کی۔ انہوں نے فارسی ادب میں قصائد خاقانی رباعیات خیام، قصائد عرفی اور غزلیات نظیری وغیرہ کے ترجمے کئے، شرحیں تحریرکیں۔ ان کی تحریرکردہ کتابیں گلستان ادب اور بوستان ادب سالہا سال پاکستان کے اسکولوں میں فارسی زبان کی درسی کتابوں میں شامل رہی ہیں۔
تصنیفات کی اجمالی فہرست
مطبوعہ کتابیں
یہ مضامین اکثر مجلات میں شائع ہوتی تھیں
آخری تاجدارامت
آیت اللہ خمینی قم سے قم تک
احوال آتشؔ و تعارف کلیات
احوال الرجال الکتاب المومن (عربی)
احوال ورباعیات خیام (فارسی)
اُردو ۔۔۔۔۔۔قواعد وانشاء
اُردو ادب میں شیعوں کا تعمیری و تخلیقی حصہ
اردوئے معلیٰ (صدی ایڈیشن) 3 جلدیں
اسرار الصلوۃ
اسلامیات لازمی برائے جماعت نہم ددہم
اسلامی معاشرہ
اُصول اسلام اور ہم
اقبال کی کہانیاں
امام حسین ؑ کے تعلیمات
انتخاب آتشؔ
انتخاب ذوقؔ
انتخاب ناسخؔ
انقلاب اسلامی معرکہ مشہد و آیت اللہ شیرازی خطوط و سوانح
انقلاب اسلامی کی تحریک
انوار آیات
انیس اورمرثیہ ۔۔۔۔۔۔ زندگی اور پیام
برمحل اشعار
بیان معانی
ہشت مقالہ قزدینی
تاریخ ادب اُردو
تاریخ عزاداری
تذکرہ مرثیہ گویاں
حیات حکیم ؒ
حیات و افکار جمال الدین افغانی
خطیب قرآن
سید چین غالبؔ پر ایک نظر
سردوِ غالبؔ
سفرنامہ حج و زیارت
شرح انتخاب قصائد خاقانی
شرح غزلیات نظیری
شرح قصائد عرفی
صحیفہ کاملہ (انتخاب و ترجمہ)
الفضل الجلی فی حیاۃ محمدقلی (عربی)
قرآنی قاعدہ و دینیات
کلیاتِ آتشؔ
کلیاتِ غالبؔ (3 جلدیں ) (فارسی)
گلستانِ ادب (ساتویں جماعت کے لیے)
گلدستہ افکار
گلستان حکمت
متعہ اور قرآن
مثنوی ابر گہربار (فارسی)
مثنویات حالیؔ
محرم و آداب عزا
مرثیہ، اریخ سے تجربہ کی طرف
مشاعرہ
مطلع انوار
مکاتیب آزادؔ
منتخب مراثی انیسؔ
صحیفہ علویہ
امیر المومنین علی ابن ابی طالبؑ
انتخاب دیوان امیرؔ شاہی سبزواری (فارسی)
انتخاب دیوان فیضیؔ (فارسی)
انتخاب صحیفة الغزال صفیؔ لکھنوی
انتخاب کلیات میرؔ
انتخاب مظہر عشق
انیسؔ کے پانچ قدیم قلمی مرثیے
یادداشت
مفقود کتابیں
تبصرۂ کتب
دفتر خطوط غالبؔ
فواخر العصوص و جواہر الفصوص (اُردو ترجمہ) (مولفہ 15۔ اکتوبر 1949)
غالبؔ، روشنی میں
غالبؔ، نقد و سوانح
مجموعۂ بے رنگ
مشاہیر شعرائے عہد بنی عباس
معدن الجواہر ۔۔۔ ملاطرزی
مقالات آزادؔ