مرزا محمد ہادی ابن مرزا محمد تقی لکھنو میں پیدا ہوئے ۔ ان کی تاریخ ولادت سنہ 57، 58 یا 1859 بتائی جاتی ہے ۔ مرزا محمد ہادی کو علم ریاضی و نجوم فن تاریخ و رجال کا شوق اپنے والد سے ورثہ میں ملا تھا ۔ انھوں نے فارسی ، اقلیدس ، حساب اپنے والد سے پڑھنا شروع کیا تھا کہ وہ ہونہار فرزند کا سولہ برس کا یتیم چھوڑ گئے ۔ محمد ہادی نے اپنے شوق سے اس عہد کے علما سے درس لئے اور عربی کے علوم میں نصاب مکمل کیا ۔ مولانا کمال الدین اور مولانا غلام حسنین کنتوری ان کے مشہور اساتید ہیں اور مرزا محمد جعفر اوج سے شعر و عروض سیکھا ۔ اس کے بعد انٹرنس کر کے انجینئرنگ کالج میں داخل ہوئے ۔ وہاں سے اوورسیری پاس کرکے کونٹے میں اچھی تنخواہ پر نوکری مل گئی وہاں علم کیمیا پر ایک عربی رسالہ دیکھا ، کسی سرحدی عالم سے اسے پڑھا اور کیمیا کی دھن میں نوکری سے رخصت لے کر گھر آئے اور تجربے کرنے لگے اور سونا بنانے لگے ۔
کرسچن کالج لکھنو میں فارسی کی جگہ ملی ۔ کالج میں پڑھاتے پڑھاتے ایف اے بی اے کرلیا ۔ اسی زمانے میں وہ دہلی گئے جہاں مولوی محمد حسین آزاد سے ملے۔ مولانا اس وقت کسی طالب علم کو میبذی پڑھا رہے تھے اور وہ لڑکا الجھ رہا تھا ۔۔ محمد ہادی نے مداخلت کی اور مسئلہ سمجھا دیا ۔ مولانا آزاد نے دہلی آنے کا سبب پوچھا تو کہا: جنتر منتر دیکھنے آیا ہوں ۔ مولانا نے شاہی رصد خانے کے کھنڈر تفصیل سے دیکھائے اب وہ زیچ بنانے لگے۔
وہ ٹیوشن ، نوکری ، مزدوری ، ناول نگاری کرکے روپیہ کماتے لیکن کمیسٹری ، ارضیات ، فلکیات کے تجربوں پر تمام دولت اور اثاثہ بیچ دیتے تھے ۔آکر تنگ آکر حیدر آباد چلے گئے ۔ وہاں دار الترجمہ میں چارسو روپے ماہوار پر ملازمت مل گئی لیکن آب و ہوا راس نہ آئی ۔ نوکری چھوڑی اور لکھنو کی راہ لی ۔ اب کی مرتبہ کرسچن کالج والوں نے سو کے بجائے پچاس روپے دیے۔ یہ نوکری اور شوق کی تکمیل میں لگ گئے ۔ زمانہ تدریس میں وہ عربی فارسی فلسفہ تو خیر پڑھاتے ہی تھے لیکن عموما ایم ایس سی لکچرر کے مسائل تدریس میں بھی مدد کرتے تھے ۔ ریاضی اور سائنس کے مشکل سے مشکل نکتے حل کردیتے تھے ۔ 1902 ،میں انھوں نے ہیئت کا جم کر مطالعہ کیا ۔ 1903 میں سائنس آف ... کا ہفتہ وار رسالہ الحکم نکالا، 1907 تک یہ پرچہ اسلام و تشیع کی خدمت کرتا رہا۔ اسی زمانے میں انھوں نے تحفۃ السنہ کے نام سے 15 جلدوں میں ایک وقیع مذہبی کتاب لکھی جس میں شیعہ عقائد و اعمال پر تمام حملوں کے مکمل جواب تھے۔ یہ کتاب مناظرے کی علمی دستاویز اور دائرہ المعارف ہے ۔ اجتہاد و اخباریت پر فصوص الحکم لکھی ۔
1904 میں محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے اجلاس لکھنو میں شرکت کی جس کے بعد شارٹ سینڈ کا اردو رسم الخط اور اصول لکھ کر 1909 میں فراغت پائی۔
1907 میں ابوالکلام آزاد نے اردو ٹائپ کا نا مکمل کی بورڈ مرزا صاحب کو دیا اور اسے مکمل کرنے کی خواہش کی اتفاقا پرنس کالج کے پرنسپل کو گورنمنٹ نے عربی حروف تہجی کے چار ٹائپ دائرہ پولیس کو ٹائپ سکھانے کے لئے بھیجے تھے ۔
رمینگٹن کمپنی نے مسٹر پیڈلی سے فرمائش کی کہ اردو کیرٹکڑ مشین تیار کروادیں۔ چار مہینے کی محنت سے یہ کام مکمل کردیا۔ ان متفرق محنت طلب تجربوں کے ساتھ ساتھ زیج مرزائی کا عمل بھی جاری تھا۔ تین سال میں زیچ اور کتاب عمل اصطرلاب سے فارغ ہوئے ۔
1920 کے بعد ایک مرتبہ پھر حیدر آباد کا رخ کیا ۔ دارالترجمہ نے خیر مقدم کیا۔ مرزا صاحب نے اب کی جم کرنو کتابوں کے ترجمے اور فلسفہ جدید و قدیم کے تقابل پر ایک مستقل کتاب لکھ کر امریکن یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری لی ۔
مرزا صاحب اردو میں چوٹی کے ادیب اور صاحب طرز ناول نگار مانے گئے ہیں ۔ فارسی ، عربی ، سنسکرت ، عبرانی ، ہندی ، انگریزی کما حقہ جانتے تھے ۔ مختلف زبانوں کے علوم سے با خبر تھے ۔ دینی علوم میں پختہ اور فلسفہ و طب و ہیئت و نجوم و کیمیا ، سائنس ، نفسیات ، منطق ، کلام فنون ادب غرض بیشمار علوم و فنون میں عالم بے بدل اور مشاہدات تجربے، تصنیف ، تالیف ، تحقیق ، ترجمہ ، تقریر غرض جامع حیثیات و صفات تھے ۔ وہ پکے شیعہ اور مبلغ قسم کے مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ پکے منشی فلسفی اور با عمل حکیم تھے ۔ یہ فیصلہ کرنا مسکل ہے کہ ان کے کون سے کام مجبوری کے تھے اور کیا کیا کام ذوق کے مرہون منت تھے۔ اس لئے کہ ان کا ہر عمل معیاری تھا۔
ان کے تالیفات کا ذکیرہ اور بہت سا کتب خانہ مدرسۃ الواعظین لکھنو میں محفوظ ہے۔
مرزا محمد ہادی صاحب کا تخلص مرزا تھا۔ مگر ان کے ناول امراؤ جان ادا نے انھیں رسوا کے نام سے مشہور کردیا ۔ وہ زندگی بھر محمد ہادی بی اے اور محمد ہادی فلسفی کہے گئے ۔ اب وہ اردو کے ناولسٹ رہ گئے ہیں ۔ اور قوم کی علم سے غفلتوں نے ان کے دوسرے کمالات فراموش کردیئے۔
مرزا محمد ہادی نے بھرپور عملی زندگی اور مخلصانہ قومی خدمات اور علمی کارناموں کے بعد چہارشنبہ 8 جمادی الثانیہ 1350 ھ کو حیدرآباد میں وفات پائی اور اسی شہر علم پرور میں آسودہ لحد ہوئے ۔
مرزا صاحب کی وفات پر ملک میں بے حد رنج و الم کا اظہار کیا گیا ۔ اور اس واقعےکو اسلامی شخصیت کا نقصان قرار دیا گیا۔ ان پر بڑے بڑے آدمیوں نے مقالے لکھے اور اب تک ادبی زاویے سے متعدد کتابیں لکھی جا چکی ہیں ۔ خود ان کی کتاب شریف زادہ بھی خود نوشت سوانح ہے۔
اولاد
آغا ولی
شاگرد
مرزا صاحب کے لاتعداد شاگرد تھے۔ جن میں افتخار حسین جج، علی عباس حسینی ، مرزا حامد حسین ایم اے کے نام ملتے ہیں۔