براہ کرم پہلے مطلوبہ لفظ درج کریں
سرچ
کی طرف سے تلاش کریں :
علماء کا نام
حوزات علمیہ
خبریں
ویڈیو
19 رَمَضان 1445
ulamaehin.in website logo
رئیس المبلغین علامه سید سعید اختر رضوی ره
رئیس المبلغین علامه سید سعید اختر رضوی ره

Allamah Sayyid Sa‘eed Akhtar Rizvi

ولادت
1 رجب 1345 ه.ق
عشری خرد گوپالپور
وفات
8 ربیع الثانی 1423 ه.ق
دارالسلام
والد کا نام : آیت الله سید ابوالحسن رضوی ره
تدفین کی جگہ : دارالسلام تانزانیا
محقق، مولف، رجال، شاعر، ادیب، مترجم
شیئر کریں
ترمیم
کامنٹ
پیدائش
1345 ه.ق
جوادیہ میں داخلہ
1361 ه.ق
ہلور میں تبلیغ
1367 ه.ق
سیوان میں امام جمعہ
1371 ه.ق
افریقہ کا سفر
1379 ه.ق
بلال مسلم مشن کی تاسیس
1384 ه.ق
امریکہ، برطانیہ اور دیگر ممالک کا سفر
1401 ه.ق
مجمع جہانی اہل بیت تہران کے رکن منتخب
1403 ه.ق
انڈیا میں بلال کی تاسیس
1416 ه.ق
وفات
1423 ه.ق
سوانح حیات
مختلف سرگرمیاں
افریقہ میں تبلیغ
تبلیغی سفر
تصنیفات
وفات
تصاویر
متعلقہ لنکس

سوانح حیات

ولادت اور تعلیم
رئیس المبلغین حضرت آیت اللہ علامہ محقق الحاج سید سعید اختر رضوی ابن مرحوم استاذ العلماء علامہ حکیم الحاج سید ابو الحسن (رہ) کی ولادت پہلی رجب، سنہ ۱۳۴۵ ہجری (بمطابق ۵ جنوری، سنہ ۱۹۲۷ عیسوی) کو عشری خورد، ضلع سیوان، بہار، ہندوستان میں ہوئی۔
آپ اپنے خانوادہ کے سلسلۂ علما ءکی پانچویں نسل   میں سے تھے۔ آپ کے والد کے علاوہ آپ کے اجداد میں سلسلہ وار چار پشت تک علمائے دین گزرے ہیں جن میں سب سے زیادہ شہرت یافتہ آیت اللہ سید محمد مہدی (متوفی ۱۹۲۹ء) تھے جن کی شہرہ  آفاق کتاب ’’لواعج الاحزان‘‘(دو جلد) آج بھی ہندوستان اور پاکستان میں نشر کی جا  رہی ہے۔
آپ کے نانا ، آیت اللہ حکیم سید زین العابدین (رہ) بھی اپنے زمانے کے بڑے علماء، اطباء اور شعراء میں شمارہوتے تھے، ان کے گھر میں ایک بڑا کتابخانہ تھا، جس میں مطالعہ وتحقیق کے حوالے سے علامہ رضوی (رہ)، اپنی یادوں کو زندگی کے آخری ایام تک بیان فرمایا کرتے تھے۔
علامہ رضوی (رہ) کے تعلیمی دور کا آغاز آپ کے آبائی وطن گوپالپور (سیوان) سے ہوا اور پھر آٹھ برس کی عمر میں آپ پٹنہ منتقل ہوئے جہاں آپ کے والد مدرسہ عباسیہ کے نائب مدیر تھے۔ وہاں آپ نے اپنے والد اور دیگر علماء کے زیر سایہ تعلیم حاصل کی۔ پھر ۱۹۴۲ء میں آپ کا داخلہ جامعۃ العلوم جوادیہ، بنارس (اترپردیش) میں ہوا جس کا شمار ہندوستان کے تین سب سے بڑے حوزات علمیہ میں ہوا کرتا تھا۔ بنارس ہی کے تعلیمی دور میں آپ نے الہ آباد بورڈ کے تحت منعقد ہونے والے عربی، فارسی اور اردو کی لسانیات کے اعلیٰ  درجےکے امتحانات میں شرکت کی۔ ان تین زبانوں کے امتحانات میں کامیاب ہونے والوں کو بالترتیب فاضل، منشی اور قابل کے القاب سے نوازاجاتا تھا۔ علامہ (رہ) نے ان تمام امتحانات میں بہترین نمبروں کے ساتھ ممتاز درجہ حاصل کیا۔
۱۹۴۶ء میں انیس برس کی عمر میں آپ جامعۃ العلوم جوادیہ سے بہترین امتیازات  کے ساتھ فارغ التحصیل ہوئے اور آپ کو وہاں کے سب سے اعلی تعلیمی اعزازفخر الافاضل سے نوازا گیا۔
وہ اساتذہ جن سے آپ نے اپنے تعلیمی دور میں استفادہ کیا ان کے اسمائے گرامی درج ذیل ہیں:
۱۔ آپ کے والد، استاد العلماء، حکیم سید ابو الحسن رضوی (پٹنہ)۔
۲۔ مولانا سید فرحت حسین (پٹنہ)۔
۳۔ مولانا سید غلام مصطفیٰ  جوہر(پٹنہ)۔
۴۔ مولانا سید مختار احمد (پٹنہ)۔
۵۔مولانا شیخ کاظم حسین (بنارس)۔
۶۔ حجۃ الاسلام و المسلمین  سید ظفر الحسن رضوی (بنارس)۔
۷۔ حجۃ الاسلام و المسلمین سید محمد رضا زنگی پوری (بنارس)۔
ان علمائے کرام کی خدمت میں  آپ نے عربی زبان اور ادبیات کےسنتی متون کے ساتھ ساتھ منطق، فلسفہ، فقہ ،اصول فقہ، علم کلام اور علم حدیث جیسے  دروس کے لئے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔
ایک طویل مدت تک مذہبی اور تبلیغی حلقوں میں سرگرم رہنے کے با وجود آپ نےعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں  ہائی اسکول کے فائنل امتحانات  میں شرکت کی اور وہاں سے بھی بہترین امتیازات کے ساتھ سندیافتہ ہوئے۔

 

 

نجف و قم  کے بزرگ مراجع کرام سے اجازات

 

 

رئیس المبلغین علامہ سید سعید اختر رضوی (رہ) اپنے بلند علمی مقام کی وجہ سے ہمیشہ مراجع کرام کے نزدیک  خاص توجہ اور عنایات کے حامل تھے، آپ کو نجف اور قم کے 20  بزرگ مراجع کرام کی طرف سے نقل روایات و احادیث، قضاوت  اور امور حسبیہ سے مربوط اجازات حاصل تھے، ان بزرگان میں حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ سید محسن حکیم، حضرت آیۃ اللہ العظمی ٰسید ابوالقاسم خوئی، حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ سید شہاب الدین مرعشی نجفی، حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ سید عبدالاعلیٰ سبزواری، حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ محمد علی اراکی، حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد رضا گلپایگانی،  حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ میرزا جواد تبریزی، حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ سید علی سیستانی اور حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ وحید خراسانی  شامل ہیں۔

علامہ رضوی (رہ) کا علمی مقام و منزلت مراجع اور بزرگ علما٫ کے نزدیک بہت بلند تھا، اس سلسلے میں  متعدد شواہد خود مراجع کرام کے اجازات اور دیگر اقوال میں موجود ہیں۔ اسی  طرح  جب دارالسلام تنزانیہ کے شیعہ حضرات اپنی مشکلات کے حل یا مذہبی سوالات و احکام کے لئے مراجع کرام سے رجوع کرتے تھے تو مراجع کرام ان سےفرمایا کرتے تھےکہ:

’’جب ان لوگوں کے یہاں علامہ رضوی (رہ)  جیسی شخصیت موجود ہیں تو کیوں وہ لوگ ہم  سے رجوع کرتے ہیں اور ان کے پاس کیوں نہیں جاتےہیں ‘‘۔

اسی طرح افریقی شیعوں نے آیۃ اللہ العظمیٰ محسن حکیم رحمۃ اللہ علیہ  اورآیۃ اللہ العظمیٰ خوئی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا کہ ہم اپنے مذہبی مسائل کے کس کی طرف رجوع کریں؟ تو انہوں نے جواب میں فرمایا کہ:

’’تم لوگ جناب سید سعید اختر رضوی کی طرف مراجعہ کرو اور جو کچھ وہ کہیں اسے قبول کرو‘‘۔

 

 

مزید دیکھیں

مختلف سرگرمیاں

نوجوانی کے دنوں سے ہی علامہ رضوی (رہ) پوری طرح سے اپنے معاشرے کی سماجی، تعلیمی اور مذہبی فلاح و بہبود کے لئے سرگرم رہے۔۱۹۴۸ء  میں اکیس برس کی عمر میں آپ اپنے والد کی جگہ ہلّور،  ضلع بستی، اترپردیش کی جماعت کے امام مقرر ہوئے  اور اسی عہدےپر ۱۹۵۱ء  تک برقرار رہے۔
۱۹۵۲ءسے ۱۹۵۹ء  تک آپ حسین گنج، سیوان (بہار) میں امام جمعہ کے فرائض انجام دیتے رہے اور حسین گنج ہایر سکنڈری اسکول میں  اردو ا ور  فارسی معلم  کے طور پرخدمات انجام دیں۔
اس پورے عرصہ میں آپ نے اپنی تمام چھٹیاں اور فارغ اوقات قوم کی خدمت کرتے ہوئے گزارے، جس میں انجمنِ وظیفہ سادات و مومنین(AWSM)اورانجمنِ ترقیِ اردو (ATO)کے مقاصد کی ترویج شامل ہے۔انجمن وظیفہ سادات و مومنین، شیعہ جوانوں میں تعلیم کو فروغ دینے کی غرض سے انہیں اعلیٰ تعلیم کے لئے وظیفہ دیتی تھی جب کہ انجمنِ ترقی اردو کا ہدف اردو زبان کو ہندوستان کے مسلمانوں کے درمیان رائج کرنا تھا۔ بعض شیعہ نوجوان جن کے پاس آج اچھی نوکریاں  ہیں ان کی اخلاقی اور مالی دونوں اعتبار سے علامہ نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں مدد کی تھی۔
جس دوران آپ ہلّور میں تھے تب آپ نے وہاں کی مسجد کی تعمیر کو مکمل کروانے میں ایک اہم کردار نبھایا تھا۔ سنہ 1950 ءمیں آپ گوپالپور کی مسجد اور امام باڑہ کےٹرسٹی (Trustee) تھے اور جب ہندوستانی حکومت نے شیعوں کی ایک بے حد وسیع زمین (جہاں زراعتی زمین کے ساتھ ساتھ  بہت بڑا تالاب تھا جس میں فراوانی سے مچھلیاں پائی جاتی تھیں) پر قبضہ کر لیا جو کہ مسجد اور امامباڑہ کے تعمیری اور فلاحی اخراجات پورا کرنے کے لئے وقف تھی، تب  آپ نے حکومت کے اس فیصلہ کے خلاف کامیابی کے ساتھ عدالت میں مقدمہ لڑا اور  قوم کو وہ زمین واپس دلائی۔
چالیس کی دہائی کے آخری حصہ میں اور پچاس کی دہائی میں علامہ (رہ) اردو زبان میں مختلف موضوعات پر مقالے اور کتابیں لکھنے میں انتہائی سرگرم رہے۔  جون ۱۹۴۹ء سے جون ۱۹۶۰ء  تک آپ نے سلسلہ وار مقالے لکھے جو  ماہنامہ الواعظ (لکھنو) میں  ’’اسلام اور تدبیرِ منزل‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا کرتے تھے۔ انہیں دس مقالوں نے آپ کی انگریزی کی کتاب’’ The Family Life in Islam ‘‘(مطبوعہ ۱۹۷۱ء) کی بنیاد رکھی۔ اس کتاب کا اردو نسخہ ۱۹۹۷ء میں ’’اسلام کا نظام خانوادگی‘‘کے نام سے شائع ہوا۔[1]
سنہ۱۳۷۴ ہجری میں ایک سنی ماہنامہ ’’رضوان‘‘ (لاہور)  کے ایڈیٹر نے کچھ سوالات شیعوں کو چیلنج کرتے ہوئے اپنے جریدہ کے ذریعہ نشر کئے۔مرحوم علامہ سے بعض شیعوں نے درخواست کی کہ آپ اس چیلنج کا جواب دیں۔ آپ نے ان کی درخواست پر جو جواب لکھا وہ  ’’مدیرِ رضوان سے دو دو باتیں‘‘کے عنوان سے بارہ مضامین کی شکل میں ماہنامہ الجواد (بنارس) میں ۱۹۵۵ء سے ۱۹۵۸ء تک شائع ہوا۔ ان مضامین کے سلسلہ کا دوسرا مضمون، جو عقیدہ ’’بداء‘‘جیسے پیچیدہ مسئلہ پر تحریر کیا گیا تھا دانشوروں کے حلقہ میں اتنا پسند کیا گیا کہ ادیبِ اعظم مولانا ظفر حسن (ایڈیٹر جریدہ نور، کراچی) نے اسے ۱۹۵۵ء میں ایک مکالمہ کی شکل میں ’’علامہ برزخی کا مکالمہ اپنی بیگم سے مسئلہ بداء میں‘‘ کے نام سے نشر کیا۔ آپ نے ساتھ ہی ایک نوٹ لکھا جس میں اس بات کا ذکر کیا کہ انہوں نے اس موضوع پر اردو زبان میں اس سے بہتر تحریر  نہیں دیکھی تھی۔ ان بارہ مضامین  (۴۴۴ صفحات)کو بعد میں ایک کتاب کی شکل میں ’’اتمامِ حجت‘‘کے نام سے ۱۹۸۶ء میں شائع کیا گیا۔ 
مندرجہ بالا   علمی کارنامے علامہ کی چند وہ کاوشیں تھیں جنہیں آپ نے ہندوستان سے افریقہ کی جانب مہاجرت سے پہلے انجام دیا تھا۔

 

دنیا کی سات رائج زبانوں پر عبور

 


علامہ رضوی (رہ) دنیا کی سات رائج زبانوں؛ اردو، فارسی، عربی، انگریزی، ہندی، گجراتی اور ساحلی پر عبور رکھتے تھے اور یہ بات آپ کی مذکورہ زبانوں میں تحریر یافتہ کتابوں سے بخوبی معلوم ہوتی ہے۔ مختلف زبانوں سے آشنائی کے بارے میں  آپ دینی طلاب کرام سے بھی بہت زیادہ سفارش فرمایا کرتےتھے، آپ کی نصیحت تھی کہ:
’’ ایک طالب علم کو اسلام اور مذہب تشیع کی تبلیغ کے لئے کم سے کم دنیا میں ایک رائج زبان پر تسلط حاصل ہونا چاہئے‘‘۔
 آپ خود بھی جب تنزانیہ میں  مشغول تبلیغ ہوئے تو آپ نے جاتے ہی درسی کتابیں خرید کر سواحلی زبان سیکھنا شروع کردیا اور اپنی عمر کے آخری ایام میں  بھی آپ اسپینیائی زبان سیکھنے میں مشغول تھے۔

 

شاعری میں مہارت

 

علامہ رضوی (رہ)  ایک زبردست شاعر بھی تھے، آپ نے اردو زبان میں بہت سے اشعار بھی کہے تھے، آپ کے اشعار کا مجموعہ’’کلیات تپش‘‘ نامی کتاب کی شکل میں  چاپ ہوا ہے۔جس کے ایک حصہ میں معصومین علیہم السلام کی مدحت میں کہے گئے اشعار  ہیں اور دوسرا غزلیات پر مشتمل  ہے، اس کے علاوہ ایک کتاب ’’گلدستۂ مودت‘‘ کے عنوان سے بھی چاپ ہوئی ہے۔

ہندوستان کے ایک مشہور ادیب جناب ’’مرحوم سید محمد نقوی‘‘، علامہ رضوی (رہ) کے اشعار کہنے کےطرز و سلیقے کو اردو کےمشہور شاعر  ’’میرزا غالب‘‘(خدائے سخن)جیسا جانتے ہیں؛ چنانچہ کلیات تپش کے مقدمہ میں تحریرکرتے ہیں کہ:

انہوں نے غالبؔ اور کچھ دوسرے شعراء کی مشہور زمینوں میں بھی کامیاب طبع آزمائی کی ہے اور بےساختہ یہ کہنے کو جی چاہتا ہے کہ یہ ان ہی کا حصہ ہے کیونکہ کہیں بھی پیوندکاری کا احساس نہیں ہوتابلکہ ایسا لگتا ہے کہ غالبؔ کے مطبوعہ دیوان میں کچھ اشعار شامل ہونے سے رہ گئے تھے جو اب منظر عام پر آرہے ہیں۔

اسی طرح علامہ (رہ) کی شعری صلاحیت اور مہارت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:

تپش ؔگوپال پوری شعرگوئی کی بے پناہ صلاحیتوں کے مالک تھے۔ ان کے ذہن و دل اور قلب و نظر کو سخنرانی کا ملکہ قدرت نے فیاضی کے ساتھ عطا کیا تھا مگر انہوں نے شاعری کو وسیلۂ شہرت و عزت نہیں بنایا۔ ان کے پیش نگاہ کچھ اور بلند مقاصد تھے جنہیں وہ بخوبی انجام دیتے رہے۔ اس کے باوجود ان کی شعرگوئی کی خلاقانہ صلاحتیں زمین سے پھوٹنے والے پانی کے اس سوتے کی طرح نمودار ہوتی رہیں، جو اپنی راہ خود بناتا ہوا آگے بڑھتا رہتا ہے۔ ان کی کہی ہوئی غزلیں اور قصیدے نہ صرف زبان و بیان کی تمام تر خوبیوں سے مزین ہیں بلکہ ان اصناف سخن میں ان کی کاوشیں ایک حسِین انفرادیت کی حامل ہیں اورصاحبانِ فکر و نظر کو طرفداری کے بغیر سوچنے سمجھنے اور لطف اندوز ہونے کی دعوت دیتی ہیں۔

مزید دیکھیں

افریقہ میں تبلیغ

دسمبر ۱۹۵۹ء میں آپ نے تنزانیہ  (جو اس زمانہ میں تنگانیکا کہا جاتا تھا)کی جانب سفر کیا جہاں آپ نے مقامی عالمِ دین کے طور پر پہلے ’’لیندی‘‘ میں (دسمبر ۱۹۵۹ء سے ۱۹۶۲ء تک) پھر ’’آروشا‘‘ میں (۱۹۶۳ء سے ۱۹۶۴ء تک) اور پھر ’’دار السلام‘‘ (۱۹۶۵ء سے ۱۹۶۹ءتک ) میں شیعہ جماعت میں امامت جمعہ و جماعت اورتبلیغ کے فرائض انجام دئیے۔
افریقہ میں آمد کے ایک ہی ہفتہ کے اندر اندر وہاں کے مقامی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے سیاہ فام افریقیوں میں حقیقی اسلام کی ترویج کے مقصد سے  آپ نے سواحلی زبان سیکھنا شروع کیا ۔ اُن دنوں پورے افریقی برِّ اعظم کے مقامی افریقی باشندوں میں ایک بھی شیعہ اثنا عشری موجود نہیں تھا اور شیعہ جماعت کے ساتھ ساتھ علماء بھی اس فریضہ کی جانب متوجہ نہیں تھے کہ اصل افریقیوں کے درمیان  بھی اہل بیت علیہم السلام کے پیغام کو پہنچایا جائے۔ لہذا ۱۹۶۲ء  میں آپ نے تبلیغ کے لئے ایک منصوبہ بنایا اور اسے خوجہ شیعہ اثنا عشری سپریم کونسل ، جو اس زمانہ میں ’’آروشا‘‘ میں ہوا کرتا تھا، کے سکرٹریٹ کی جانب ارسال فرمایا، ابتدائی میں اس کی مخالف ہوئی لیکن علامہ اور بعض حامیوں کے اصرار کی وجہ سے ۱۹۶۳ء  میں اس منصوبہ کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ اُس مرحلہ پر مذکورہ منصوبہ کو ا س انداز میں  نافذ نہیں کیا جا سکا جیسا کہ مشورہ دیا گیا تھا لیکن ایک ابتدائی منصوبہ عمل میں لایا گیا۔ (۱۹۶۳ء میں ہی آپ نے مشرقی افریقہ کی تمام جماعتوں کا دورہ کیا اور مدارس کے نظام کو تقویت بخشنے  اور اس کا جائزہ لینے کی تاکید کی؛ اور اس دورہ  کے نتیجہ میں آپ تمام مدارس (مذہبی اسکولوں) کے نصاب کو منظم کرنے میں بھی کامیاب ہوئے)۔ ۱۹۶۴ء  میں سکرٹریٹ نے آپ کی تبلیغی تجویز پر ایک لائحہ عمل تیار کیا جسے  افریقہ کی خوجہ شیعہ اثنا عشری جماعتوں کے  فڈریشن کی ’’ٹانگا‘‘ میں منعقد ہونے والی تین سالہ کانفرنس  کے ایجنڈے میں شامل کیا گیا۔ اور اس طرح ’’بلال مسلم مشن‘‘ وجود میں آیا۔
اس دن سے علامہ رضوی (رہ) نے اپنے تمام فارغ اوقات کو مذکورہ ادارے کے توسط سےتبلیغی کاموں میں صرف کرنا شروع کردیا۔  ۱۹۶۸ء  میں تنزانیہ کے’’بلال مسلم مشن‘‘  کا رجسٹریشن ہوا۔ جب کام بہت بڑھ گیا تو مرحوم آیت اللہ سید محسن الحکیم(رحمۃ اللہ علیہ) (نجف، عراق) نے خوجہ شیعہ اثنا عشری جماعت سے کہا کہ وہ علامہ کو جماعت کی ذمہ داریوں سے بری کر دیں اور اس وقت سے آپ کے تمام اخراجات مرحوم آیت اللہ حکیم(رحمۃ اللہ علیہ)کے حساب سے ادا کئے جانے لگے اور ان کے انتقال کے بعد مرحوم آیت اللہ خوئی(رحمۃ اللہ علیہ) کے حساب سے ادا کئے گئے۔
 
بلال مسلم مشن کی عالمی رسائی
رئیس المبلغین علامہ سید سعید اختر رضوی (رہ) کی سربراہی میں بلال مسلم مشن کی زحمتوں کے نتیجہ میں ہزاروں  افریقیوں نے مذہبِ تشیع قبول کر لیا۔ تعلیم، مطبوعات اور کورسپونڈنس کورس[2] (فاصلاتی تعلیم) کے ذریعہ آہستہ آہستہ اس مشن کی فعالیت کا دائرہ کار وسیع تر ہوتا گیا اور مشرقی ممالک میں تھائی لینڈ، انڈونیشیا اور جاپان کے ساتھ ساتھ مغربی کی جانب یورپ، امریکہ اور کریبین جزیرےبھی  اس ادارے کی خدمات سے بہرہ مند ہونے لگے۔
اسلامی فاصلاتی تعلیم کے بلا واسطہ اثرات سے اب شیعہ قوم لطیف علی صاحب کے زیر نگرانی گویان  میں ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور لطیف صاحب ’’ٹرینیڈاڈ‘‘  اور ’’ٹوباگو‘‘  تک پیغام دین پہنچانے میں کامیاب ہوئے۔ علی صاحب جو کہ ۱۹۷۲ء میں شیعہ ہوئے، ’’گویان‘‘  میں تشیع کی ترقی کے اہم عناصر یوں بیان کرتے ہیں: علامہ رضوی؛  ایک انتہائی محنتی معلم اور لطیف علی؛ ایک مشتہر کرنے والا ۔
بلال مسلم مشن کا  مبلغین کے لئے دار السلام میں ایک تربیتی مرکز (حوزہ علمیہ) ہےجس میں ایک وسیع و عریض خوابگاہ بھی ہے۔ نرسری، پرائمری اور سکنڈری اسکولوں کے ساتھ ساتھ قرآنی مدرسے ہیں اور معلمین کے لئے ایک تربیتی کالج بھی ہے۔ متعدد حوزات ہیں جہاں سے کئی طلاب فارغ التحصیل ہو کر قم، نجف، شام اور لبنان میں اسکالرشپ حاصل کر چکے ہیں۔ بلال مشن  افریقی شیعوں کے لئےکئی خیراتی منصوبوں پر بھی کام کر رہا ہے۔ 
بلال مسلم مشن کی جانب سے تین فاصلاتی تعلیم کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے جس کے ذریعہ تشیع کی روشنی دور  دور تک پہنچ چکی ہے۔ مشن کی جانب سے سو سے زیادہ کتابیں انگریزی اور سواحلی میں شائع ہو چکی ہیں جن میں سے زیادہ ترحصہ علامہ رضوی (رہ) کی کتابوں اور ان کے ترجموں کا ہے۔
بلال مسلم مشن کے شعبے کینیا (جس کی بنیاد تنزانیہ کے مشن کے ساتھ ہی رکھی گئی تھی)، برونڈی، مڈگاسکر، کنگو، راوندا اور موزامبیک میں  بھی موجود ہیں۔تنزانیہ کے بلال مسلم مشن سے متاثر ہو کر اسی نام سے کئی اور اداروں کی بنیاد سنگال، نیجیریا، گھانا، سویڈن اور امریکہ  میں  بھی رکھی گئی ۔
رئیس المبلغین علامہ سید سعید اختر رضوی (رہ) کی سرپرستی و سربراہی میں ملک تنزانیہ میں ’’بلال مسلم مشن‘‘ نے بہت سی خدمات انجام دی  ہیں

 

ہندوستان واپسی

۱۹۷۸ء میں علامہ رضوی (رہ)  مستقل قیام کی غرض سے ہندوستان واپس آئے جہاں آپ نے مرحوم علامہ محمد حسین طباطبائی رحمۃ اللہ علیہ کی تفسیر ’’المیزان‘‘  کا انگریزی میں ترجمہ شروع کیا۔ ابھی تک اس ترجمہ کی دس جلدیں شائع ہو چکی ہیں۔ اس مدت میں آپ علمی کارناموں کے علاوہ  کئی خیراتی امور کے لئے بانی اور ذریعہ بھی بنے جن میں  گوپالپور کی عید گاہ اور امام بارگاہ کی تعمیر ِنو اور مسجد کی بازسازی شامل ہے۔

علامہ رضوی (رہ) ہندوستان میں زیادہ مدت تک مقیم نہیں رہ سکے اور دوبارہ تنزانیہ ہجرت کر گئے وہاں بلال مسلم مشن کی حالت دیکھ کر وہیں ٹھہرنے پر مجبور ہوگئے لیکن ہرگز انہوں نے اپنے وطن  کو فراموش نہیں کیا؛ چنانچہ سنہ ۱۹۹۵ء  میں آپ نے گوپالپور ہندوستان میں ’’بلال چیریٹیبل ٹرسٹ‘‘ قائم کیا۔ اس ٹرسٹ کی بنیاد رکھنے کا اصل مقصد ان تمام تمام خیراتی امور کو رسمیت دینا تھا جو علامہ کی جانب سے اور ان کے ذریعہ کئی دہائیوں سے بہار میں انجام پا رہے تھے۔ افریقہ فڈریشن، الایمان  فاؤنڈیشن ،ممبئی اور متعدد ممالک بالخصوص کینیڈا کے مومنین کرام عرصہ دراز سے بلال چیریٹیبل ٹرسٹ کو تقویت بخشتے  آرہے ہیں۔ ابھی تک ۲۵ سے زائد مساجد اور امام بارگاہیں اور ۳۹ بے گھر افراد کے لئے گھروں کی تعمیر اس ٹرسٹ کی جانب سے کی جاچکی ہے۔ بلال چیریٹیبل ٹرسٹ ہی نے گوپالپور میں ’’المہدی انسٹیٹیوٹ ‘‘ کا قیام بھی کیا ہے جس کے تحت المہدی انگریزی میڈیم اسکول اور المہدی انسٹیٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی چل رہے ہیں۔ یہ سب ان بنیادی خیراتی امور کے علاوہ ہیں جن میں اس خطہ کے مستحق برادرانِ ایمانی  کے لئے کھانے، کپڑے، شادی کے اخراجات اور علاج  کی امداد فراہم کی جاتی ہے۔اس ٹرسٹ کی جانب سے بہار کے مختلف علاقوں میں آئی کیمپ [3]بھی قائم کئےجاتے ہیں۔

 

تنزانیہ واپسی

آپ ۱۹۸۶ء  میں  ایک مختصر دورہ کے لئےتنزانیہ واپس آئے  جہاں ’’بلال مسلم مشن‘‘ کی صورتِ حال نے آپ کو مجبور کر دیا کہ آپ وہاں مستقل طور پر قیام پذیر ہو کر اس کی نگرانی کریں اور مشن کی کارکردگی کو تقویت بخشیں۔ لہذا آپ نے اپنا مرکز ’’دار السلام‘‘ کو قرار دینے کا فیصلہ کیا اور اپنے وقت کو تنزانیہ، ہندوستان اور کینیڈا کے درمیان تقسیم کیا۔

۱۹۹۱ءمیں ایران کے دار الحکومت تہران میں ’’اہل البیت ورلڈ اسمبلی‘‘  کی بنیاد رکھی گئی اور علامہ رضوی (رہ) کو اس کی سپریم کونسل کے کمیٹی ممبر کے طور پر منتخب کیا گیا۔ ساتھ ہی آپ اہل البیت اسمبلی  تنزانیہ، کے بانی اور چیئر مین بھی قرار پائے۔

مزید دیکھیں

تبلیغی سفر

علامہ رضوی (رہ) نے مذہب تشیع کی تبلیغ کے میدان میں کبھی بھی اپنے آپ کو کسی خاص منطقہ اور ملک تک محدود نہیں رکھا، آپ مختلف اسلامی سیمینار اور جلسات میں  شریک رہتے تھے ، آپ نے ایران، عراق، کینیڈا، انگلینڈ، آمریکہ اور مشرقی افریقہ کے ممالک تنزانیہ، کینیا  وغیرہ  جیسے تقریباً ۳۰ ممالک میں تبلیغی سفر انجام دئیے ۔
۸۰ کی دہائی کے آخری حصہ میں آپ کو شمالی امریکہ کے شہر نیو یورک کے قریہ مدینہ میں پہلا دینی حوزہ ، حوزہ علمیہ ولی عصر، قائم کرنے کے لئے مدعو کیا گیا ۔
۱۹۸۱ء  میں آپ نے برطانیہ اور امریکہ کی جانب سفر تبلیغی سفر کیا تھا جس کا  اصلی مقصد ماہ رمضان میں تبلیغ دین تھا لیکن آپ نے موقع غنیمت جان کر انجمنِ وظیفہ سادات کے مرکزی دفتر سے ان شیعوں کی فہرست طلب کی جنہیں  اعلیٰ تعلیم کے لئےقرض حسنہ دیا گیا تھا اور  امریکہ میں ان کے حالات پوری طرح سے مستحکم ہونے کے باوجود انہوں نے قرض کی ادائیگی نہیں کی تھی۔ یہ کام آپ نے ان افراد سے رابطہ کر کے قرض  لوٹانے کے مطالبہ کے لئے کیا تھا تاکہ اس رقم کے ذریعہ مستحق شیعہ طلاب کی مدد کی جا سکے۔
دسمبر ۱۹۸۲ء میں آپ ’’امام صاحب الزمان ٹرسٹ‘‘ کی دعوت پر لندن روانہ ہوئے۔ اسی دوران آپ نے مرحوم حجت الاسلام سید مہدی الحکیم کے ساتھ ورلڈ اہل البیت اسلامک لیگ ’’WABIL ‘‘قائم کرنے میں تعاون کیا؛آپ اس لیگ کے تین بنیادی ٹرسٹیز میں سے تھے۔ آپ اس انتظامی کمیٹی کے ڈائریکٹر تھے جس نے’’ WABIL‘‘ کا دستور العمل بنایا تھا اور اس کی پہلی آئینی کانفرس کا انعقاد کیا تھا۔ اس کانفرنس کا انعقاد اگست ۱۹۸۳ء  میں ہوا اور تاریخ تشیع میں پہلی بار کسی کانفرنس میں دنیا کے ۳۰ ممالک سے ۸۰ مہمانوں نے شرکت کی۔ اس کانفرنس میں علامہ رضوی رہ کو دو سال کی مدت کے لئے’’ WABIL‘‘  کا ڈائریکٹر جنرل منتخب کیا گیا۔ 
۱۹۸۲ء۔۱۹۸۳ء  میں آپ نے ریاستہائے متحدہ امریکہ اور کینیڈا کے تقریباً تمام بڑے شیعہ مراکز کا دورہ کیا اور آپ نے ٹورینٹو میں قائم ہونے والے پہلے شیعہ سمر کیمپ میں تقریریں بھی کیں۔
علامہ رضوی (رہ) متعدد مرتبہ ایران کے سفر پر بھی تشریف لائے تھے اور یہاں بھی آپ فرصت ملتے ہی اپنی علمی خدمات کی تکمیل میں لگے رہتے تھے۔

مزید دیکھیں

تصنیفات

۱۹۴۹ء سے ۲۰۰۲ء  تک علامہ نے مختلف موضوعات پرتقریباً ۱۲۵ کتابیں تحریر فرمائیں جو علم کلام سے لےکر ادیانی موازنہ تک، قانون سے لے کر اخلاقیات اور تاریخ تک، تفسیر سے حدیث تک، اردو شاعری سے لے کر علماء کے علمی کارناموں اور ان کی سوانح حیات وغیرہ  پر مشتمل ہیں۔
ان  میں سے ۸۵ کتابیں انگریزی میں، ۳۲ اردو میں، ۱۲ عربی میں اور ۱۷ سواحلی میں ہیں اور ان میں  ۹۸ کتابیں نشر کی جا چکی ہیں ۔اپنی زندگی کے آخری ایام میں آپ اردو، انگریزی اور عربی میں تین کتابیں لکھنے میں مصروف تھے۔ آپ کی بعض کتابیں ۲۲ زبانوں میں ترجمہ کی گئی ہیں جن میں جاپانی، گجراتی، انڈونیزی، تھائی، برمیز، اردو، ہندی، سندھی، کشمیری، فارسی، سواحلی، حوسہ، شونہ، اطالوی، فرانسیسی، سویڈش، ترکی، بوسنی، عربی اور ہولنڈی زبانیں شامل ہیں۔
آپ کی علمی مہارت کا اندازہ اسلامی فاصلاتی تعلیم کے   لئے لکھی گئی دوسری کتاب’’ گاڈ آف اسلام‘‘ سے لگایا جا سکتا ہے۔ یہ کتاب ۱۹۷۱ء  میں شائع ہوئی تھی۔  کتاب گاڈ آف اسلام کا موضوع پروردگار عالم کے وجود اور توحید پر مبنی ہے۔ اس کتاب کا علامہ طباطبائی کی کتاب ’’اصول فلسفہ‘‘ اور ’’روشِ رئیلیزم‘‘   کی پانچویں جلد جس  پر شہید مرتضی مطہری نے جو تفصیلی شرح لکھی  تھی اور وہ ۱۹۷۵ء  میں منظر عام پر آئی، سے موازنہ کیا جائے  تو اندازہ ہوگا کہ علامہ رضوی (رہ) کو اسلامی الٰہیات پر کس درجہ مہارت حاصل تھی۔ دونوں کتابوں میں بحث کی بنیاد بہت مشابہ ہے مگر ان میں ایک نمایاں فرق یہ ہے کہ شہید مطہری کی شرح فلسفی انداز میں ہے اور اس میں فلسفی مباحث کے تاریخی ارتقا کو بیان کیا گیا ہے، جبکہ گاڈ آف اسلام کبھی بھی اپنے قارئین کو یہ احساس نہیں ہونے دیتی کہ وہ فلسفیانہ دائرہ ٔ مہارت میں قدم رکھ رہی ہے ۔ اور اسی سے علامہ رضوی (رہ) کی کتاب کی خوبصورتی ظاہرہوتی ہے کہ آپ نے انتہائی پیچیدہ الٰہیاتی اور فلسفی بحث کو  بے حد آسان اور سادہ الفاظ میں بغیر کسی اصطلاحاتی پیچیدگی کے پیش کر دیا۔  
۱۹۷۲ءمیں نامہ آستانِ قدس(جلد ۹، نمبر ۱۔۲)نے، جو حرمِ امام رضاعلیہ السلام مشہد کا انتظامی رکن ہے، علامہ کی کتاب’’نبوت‘‘کے بعض حصوں کا فارسی ترجمہ شائع کیا۔ اس کے تعارفی نوٹ میں ایڈیٹر لکھتا ہےکہ:
’’متعدد ابواب میں انتہائی مفید اور دقیق موضوعات کو آسان زبان میں بیان کیا گیا ہے جس سے اس کی افادیت میں اضافہ ہوتا ہے اور قارئین کی توجہات جلب ہوتی ہیں لہذا ہم اس مفید کتاب کے بعض ابواب کا ترجمہ پیش کر رہے ہیں۔ ‘‘
امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی امامت کے موضوع پر آپ کی کتاب جس کا عنوان ’’امامت: رسول کی خلافت‘‘ ہے ’’ورلڈ آرگنائزیشن فار اسلامک سرویسز‘‘ کی جانب سے متعدد بار شائع کی جا چکی ہے اور دنیا بھر میں نشر ہوئی ہے۔ ڈاکٹر خلیل طباطبائی نے اپنے ایک بیان میں فرمایا تھا کہ:
 ’’علامہ رضوی (رہ) کی کتاب امامت،  اصولِ دین کے موضوعات پرلکھی گئی دیگر کتب کے مقابلےمیں اپنے اختصار کے باوجودتمام اہم مباحث کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں اور اس کو عربی زبان میں بھی فراہم کیا جانا چاہئے‘‘۔
 انہوں نے فرمایا کہ:
 ’’ان موضوعات پر عربی کی کتابیں یا تو انتہائی مختصر ہیں یا بے حد طولانی‘‘۔
 لہذا  علامہ رضوی (رہ) نے اس کتاب کا ترجمہ خود انجام دیا اور اسے ڈاکٹر طباطبائی نے ’’امام حسین فاؤنڈیشن‘‘ بیروت،  کے ذریعہ ۱۹۹۹ء  میں شائع کروایا۔ 
علامہ رضوی (رہ) نے مرحوم محقق دانشور علامہ آیت اللہ سید عبد العزیز طباطبائی کے ساتھ مل کرقم المقدسہ میں مرحوم آقا بزرگ تہرانی رحمۃ اللہ علیہ کی   ۲۰ جلدوں پر مشتمل مجموعہ فہرست تصنیفات پر  معرکۃ الآراء کتاب ’’الذریعہ‘‘ کی تصحیح  اور  تجدید کا کام بھی انجام دیا تھا۔ علامہ رضوی (رہ) نے الذریعہ کے پورے مجموعہ  کا مطالعہ کیا اور عربی میں اس کتاب پر ایک ضمیمہ لکھا جس کے ہزار نوٹ اور ہزار نئے عناوین مرحوم علامہ طباطبائیرحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’’اضواء الذریعہ‘‘میں اضافہ کئے۔
علامہ  رضوی (رہ) کی ذات علمی خدمات کے لحاظ سے مراجع و بزرگان کے نزدیک  بہت اہمیت کی حامل تھیں چنانچہ ایک مرتبہ جب معالجہ کے لئے دفتر رہبر معظم کی درخواست پر ایران تشریف لائے اور حضرت آیۃ  اللہ العظمیٰ خامنہ ای حفظہ اللہ تعالیٰ سے  ملاقات کا شرف حاصل ہوا تو انہوں نے آیت اللہ کاشف الغطاء کی کتاب ’’اصل الشیعۃ‘‘ کا سواحلی زبان میں ترجمہ کرنے کی سفارش فرمائی  جس کو علامہ رضوی (رہ)  نے نہایت خوشی کے ساتھ قبول کیا اور عرض کیا کہ:
 ’’اب مجھ پر لازم و واجب ہوگیا ہے کہ میں اس کام کو انجام دوں۔ ‘‘

مزید دیکھیں

وفات

 

علامہ رضوی (رہ) ، ۸ ربیع الثانی ۱۴۲۳ہجری قمری ، بروز پنجشنبہ، ۷۵ سال کی عمر میں جب آپ علامہ طباطبائی رحمۃ اللہ علیہ کی مشہورتفسیری کتاب ’’المیزان‘‘ کے انگریزی ترجمہ میں مشغول تھے تو دماغی اٹیک کی وجہ سے اسپتال میں منتقل کئے گئے، وہاں صرف ۱۲ گھنٹہ کی مدت میں آپ اپنے گھروالوں، نجف و قم و ہندوستان  علمی حلقوں اور افریقہ کے محروم و مظلوم شیعوں کواپنی جدائی کا غم دے کر اپنے محبوب  حقیقی سے  جاملے ۔اور آپ اپنے وطن ثانی ’’دارالسلام‘‘ افریقہ کے قبرستان میں مدفون ہیں۔

آپ کی اچانک ہونے والی وفات نے دنیائے تشیع اور خاص طور پر آفریقی شیعوں کو بہت زیادہ رنج و غم میں مبتلا کردیا تھا اور دنیائے اسلام کے بزرگ مراجع کرام اور علمائے عظام اور دینی اداروں نے کی جانب سے تعزیتی اور تسلیتی پیغامات کے ذریعہ معلوم ہوتا ہے کہ علمی حلقہ میں ایک عظیم شگاف پیدا ہوگیا تھا چنانچہ آیۃ اللہ العظمیٰ مکارم شیرازی حفظہ اللہ تعالیٰ  علامہ رضوی (رہ)  کی پربرکت زندگی کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے اپنے تسلیتی پیغام میں لکھتے ہیں کہ:

 ’’سعیداختر رضوی (رہ) نے ایک پر برکت عمر افریقہ کی محروم سرزمین پر مکتب اہل بیت علیہم السلام کی تبلیغ، دین اسلام کی ترویج ، دینی طلاب کی تعلیم و تربیت اورحوزات علمیہ کے قیام میں گزاری ہے، مرحوم نے نہ صرف درس و تدریس اور منبر سے تبلیغی کام انجام دیے بلکہ اپنے مضبوط قلم  اور دنیا کی سات زندہ زبانوں کے ذریعہ بھی بہت ہی قیمتی خدمات انجام دی ہیں‘‘۔

واضح رہے کہ علامہ رضوی (رہ)  کے بیٹے مرحوم سید مرتضی افریقہ میں اپنے والدگرامی کی اچانک رحلت کے بعد آپ کی جگہ مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام ایران اور بلال مسلم مشن افریقہ کی نمائندگی کرتے رہےاور اسی سلسلہ  انہوں  نے متعدد بار ایران کا بھی سفرکیا تھا اور ایک سفر کے دوران قم میں ایک ایکسڈینٹ میں شدید زخمی بھی ہوگئے تھے جس کی وجہ سے تنزانیہ لوٹنے کے بعد کئی سالوں  تک معالجہ کے صدمات برداشت کرتے رہے اور آخرکار آپ  بھی اس دارفانی سے کوچ کرگئے۔

مرحوم سید مرتضیٰ نے اپنی حیات میں اپنے والد مرحوم کے کئی آثار کو مراحل طباعت تک پہونچایا اور کئی نفیس کتابوں کو مختلف زبانوں خاص طور پر انگریزی اور سواحلی میں ترجمہ کروایا، اسی طرح خود آپ نے بھی ضرورت کے مدنظر متعدد کتابیں تحریر  فرمائی تاکہ علامہ رضوی  (رہ)  کے اہداف کی تکمیل میں تعاون پیش کرسکے۔

(اللہ   مرحومین کی خدمات کو قبول کرے اور درجات میں بلند عطا فرمائے)۔

مزید دیکھیں
تصاویر
6ڈاؤن لوڈز
زوم
ڈاؤن لوڈ
شیئر کریں
رئیس المبلغین علامه سید سعید اختر رضوی ره رئیس المبلغین علامه سید سعید اختر رضوی ره رئیس المبلغین علامه سید سعید اختر رضوی ره رئیس المبلغین علامه سید سعید اختر رضوی ره رئیس المبلغین علامه سید سعید اختر رضوی ره
متعلقہ لنکس
دیگر علما
کامنٹ
اپنا کامنٹ نیچے باکس میں لکھیں
بھیجیں
نئے اخبار سے جلد مطلع ہونے کے لئے یہاں ممبر بنیں
سینڈ
براہ کرم پہلے اپنا ای میل درج کریں
ایک درست ای میل درج کریں
ای میل رجسٹر کرنے میں خرابی!
آپ کا ای میل پہلے ہی رجسٹر ہو چکا ہے!
آپ کا ای میل کامیابی کے ساتھ محفوظ ہو گیا ہے
ulamaehin.in website logo
ULAMAEHIND
علماۓ ہند ویب سائٹ، جو ادارہ مہدی مشن (MAHDI MISSION) کی فعالیتوں میں سے ایک ہے، علماۓ کرام کی تصاویر اور ویڈیوز کو پیش کرتے ہوۓ، ان حضرات کی خدمات کو متعارف کرواتی ہے۔ نیز، اس سائٹ کا ایک حصہ ہندوستانی مدارس اور کتب خانوں، علماء کی قبور کو متعارف کروانے سے مخصوص ہے۔
Copy Rights 2024