ولادت اور تعلیم
رئیس المبلغین حضرت آیت اللہ علامہ محقق الحاج سید سعید اختر رضوی ابن مرحوم استاذ العلماء علامہ حکیم الحاج سید ابو الحسن (رہ) کی ولادت پہلی رجب، سنہ ۱۳۴۵ ہجری (بمطابق ۵ جنوری، سنہ ۱۹۲۷ عیسوی) کو عشری خورد، ضلع سیوان، بہار، ہندوستان میں ہوئی۔
آپ اپنے خانوادہ کے سلسلۂ علما ءکی پانچویں نسل میں سے تھے۔ آپ کے والد کے علاوہ آپ کے اجداد میں سلسلہ وار چار پشت تک علمائے دین گزرے ہیں جن میں سب سے زیادہ شہرت یافتہ آیت اللہ سید محمد مہدی (متوفی ۱۹۲۹ء) تھے جن کی شہرہ آفاق کتاب ’’لواعج الاحزان‘‘(دو جلد) آج بھی ہندوستان اور پاکستان میں نشر کی جا رہی ہے۔
آپ کے نانا ، آیت اللہ حکیم سید زین العابدین (رہ) بھی اپنے زمانے کے بڑے علماء، اطباء اور شعراء میں شمارہوتے تھے، ان کے گھر میں ایک بڑا کتابخانہ تھا، جس میں مطالعہ وتحقیق کے حوالے سے علامہ رضوی (رہ)، اپنی یادوں کو زندگی کے آخری ایام تک بیان فرمایا کرتے تھے۔
علامہ رضوی (رہ) کے تعلیمی دور کا آغاز آپ کے آبائی وطن گوپالپور (سیوان) سے ہوا اور پھر آٹھ برس کی عمر میں آپ پٹنہ منتقل ہوئے جہاں آپ کے والد مدرسہ عباسیہ کے نائب مدیر تھے۔ وہاں آپ نے اپنے والد اور دیگر علماء کے زیر سایہ تعلیم حاصل کی۔ پھر ۱۹۴۲ء میں آپ کا داخلہ جامعۃ العلوم جوادیہ، بنارس (اترپردیش) میں ہوا جس کا شمار ہندوستان کے تین سب سے بڑے حوزات علمیہ میں ہوا کرتا تھا۔ بنارس ہی کے تعلیمی دور میں آپ نے الہ آباد بورڈ کے تحت منعقد ہونے والے عربی، فارسی اور اردو کی لسانیات کے اعلیٰ درجےکے امتحانات میں شرکت کی۔ ان تین زبانوں کے امتحانات میں کامیاب ہونے والوں کو بالترتیب فاضل، منشی اور قابل کے القاب سے نوازاجاتا تھا۔ علامہ (رہ) نے ان تمام امتحانات میں بہترین نمبروں کے ساتھ ممتاز درجہ حاصل کیا۔
۱۹۴۶ء میں انیس برس کی عمر میں آپ جامعۃ العلوم جوادیہ سے بہترین امتیازات کے ساتھ فارغ التحصیل ہوئے اور آپ کو وہاں کے سب سے اعلی تعلیمی اعزازفخر الافاضل سے نوازا گیا۔
وہ اساتذہ جن سے آپ نے اپنے تعلیمی دور میں استفادہ کیا ان کے اسمائے گرامی درج ذیل ہیں:
۱۔ آپ کے والد، استاد العلماء، حکیم سید ابو الحسن رضوی (پٹنہ)۔
۲۔ مولانا سید فرحت حسین (پٹنہ)۔
۳۔ مولانا سید غلام مصطفیٰ جوہر(پٹنہ)۔
۴۔ مولانا سید مختار احمد (پٹنہ)۔
۵۔مولانا شیخ کاظم حسین (بنارس)۔
۶۔ حجۃ الاسلام و المسلمین سید ظفر الحسن رضوی (بنارس)۔
۷۔ حجۃ الاسلام و المسلمین سید محمد رضا زنگی پوری (بنارس)۔
ان علمائے کرام کی خدمت میں آپ نے عربی زبان اور ادبیات کےسنتی متون کے ساتھ ساتھ منطق، فلسفہ، فقہ ،اصول فقہ، علم کلام اور علم حدیث جیسے دروس کے لئے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔
ایک طویل مدت تک مذہبی اور تبلیغی حلقوں میں سرگرم رہنے کے با وجود آپ نےعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ہائی اسکول کے فائنل امتحانات میں شرکت کی اور وہاں سے بھی بہترین امتیازات کے ساتھ سندیافتہ ہوئے۔
نجف و قم کے بزرگ مراجع کرام سے اجازات
رئیس المبلغین علامہ سید سعید اختر رضوی (رہ) اپنے بلند علمی مقام کی وجہ سے ہمیشہ مراجع کرام کے نزدیک خاص توجہ اور عنایات کے حامل تھے، آپ کو نجف اور قم کے 20 بزرگ مراجع کرام کی طرف سے نقل روایات و احادیث، قضاوت اور امور حسبیہ سے مربوط اجازات حاصل تھے، ان بزرگان میں حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ سید محسن حکیم، حضرت آیۃ اللہ العظمی ٰسید ابوالقاسم خوئی، حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ سید شہاب الدین مرعشی نجفی، حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ سید عبدالاعلیٰ سبزواری، حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ محمد علی اراکی، حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد رضا گلپایگانی، حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ میرزا جواد تبریزی، حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ سید علی سیستانی اور حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ وحید خراسانی شامل ہیں۔
علامہ رضوی (رہ) کا علمی مقام و منزلت مراجع اور بزرگ علما٫ کے نزدیک بہت بلند تھا، اس سلسلے میں متعدد شواہد خود مراجع کرام کے اجازات اور دیگر اقوال میں موجود ہیں۔ اسی طرح جب دارالسلام تنزانیہ کے شیعہ حضرات اپنی مشکلات کے حل یا مذہبی سوالات و احکام کے لئے مراجع کرام سے رجوع کرتے تھے تو مراجع کرام ان سےفرمایا کرتے تھےکہ:
’’جب ان لوگوں کے یہاں علامہ رضوی (رہ) جیسی شخصیت موجود ہیں تو کیوں وہ لوگ ہم سے رجوع کرتے ہیں اور ان کے پاس کیوں نہیں جاتےہیں ‘‘۔
اسی طرح افریقی شیعوں نے آیۃ اللہ العظمیٰ محسن حکیم رحمۃ اللہ علیہ اورآیۃ اللہ العظمیٰ خوئی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا کہ ہم اپنے مذہبی مسائل کے کس کی طرف رجوع کریں؟ تو انہوں نے جواب میں فرمایا کہ:
’’تم لوگ جناب سید سعید اختر رضوی کی طرف مراجعہ کرو اور جو کچھ وہ کہیں اسے قبول کرو‘‘۔