براہ کرم پہلے مطلوبہ لفظ درج کریں
سرچ
کی طرف سے تلاش کریں :
علماء کا نام
حوزات علمیہ
خبریں
ویڈیو
28 رَبيع الأوّل 1446
ulamaehin.in website logo
آیت الله العظمی سید نجم الحسن نجم الملة

آیت الله العظمی سید نجم الحسن

Ayatullah Al-uzma Syed Najmul Hasan Najmul Millat

ولادت
6 ذی الحجة 1279 ه.ق
امروہہ
وفات
17 صفر 1357 ه.ق
لکهنو
والد کا نام : سید اکبر حسین رضوی
تدفین کی جگہ : لکهنو
شیئر کریں
ترمیم
کامنٹ
سوانح حیات
تاسیس مدارس
تصانیف
وفات
تصاویر
متعلقہ لنکس

سوانح حیات

تاریخ علمائے بر صغیر کے آخری عظیم علما میں عظیم ترین عالم دین جن کے جذبہ اشاعت اسلام نے تبلیغ کی نئی طرح ڈالی اور فکر روشن نے زوال آمادہ ملت کو شمع راہ دی ۔

مولانا سید نجم الحسن بن سید اکبر حسین رضوی 6 ذی الحجہ ۱۲۷۹ ھ کو امروہہ میں پیدا ہوئے ۔ سید اکبر حسین صاحب بڑے عابد و زاہد ، فاضل و شاعر بزرگ تھے ۔ محلہ دانشمنداں میں رہتے تھے ۔ موصوف نے اپنے فرزند کو علم دین کے لئے مخصوص کردیا تھا ۔ ابجد خوانی و بسم اللہ کے بعد مولانا سید تفضل حسین صاحب سنبھلی کے درس میں بھیجا ۔ یہاں نو عمر نجم الحسن رضوی نے متوسطات تک نصاب مکمل کرکے عزم لکھنو کیا ۔

لکھنو میں تمام علوم اسلامیہ مشہور اساتذہ سے حاصل کیے۔ خصوصا جناب سید ابوالحسن ابو صاحب ، جناب مفتی محمد عباس صاحب ، جناب ملا علی نقی صاحب سے زیادہ فیض پایا۔

مولانا نجم الحسن صاحب بہت ذہین ، ذکی ، محنتی اور صاحب ذوق تھے ۔ ان کی استعداد نے اساتذہ کو میربان کردیا اور جناب مفتی محمد عباس صاحب قبلہ نے تو خویشی اور فرزندی کا شرف بخشا ۔ کہتے ہیں کہ جناب مفتی صاحب نے جو اجازہ آپ کو مرحمت فرمایا وہ کسی شاگرد کو نہیں دیا تھا ۔

مولانا نجم الحسن نے استاد کی زندگی میں درس دینا شروع کردیا تھا ۔ تفسیر و حدیث ، فقہ و اصول ، ادب و ہیئت میں آپ کی شہرت دور دور تک پہنچ گئی تھی ۔

مولانا سید محمد مہدی صاحب ادیب اپنے گھر پر پندرہ دن بعد عربی ادب و شعر کا اجتماع کرتے تھے ۔ مولانا نجم الحسن صاحب نے اپنے فصیح و بلیغ قصائد و اشعار سے یہاں ہمیشہ برتری حاصل کی ۔ انھوں نے ابتدا میں اپنی زندگی کا نصیب العین بنایا تھا ۔ درس دینا اور اپنے استاد مفتی محمد عباس صاحب کے تصانیف کو مدون و مرتب کرکے قابل اشاعت بنانا اور پھر سعی و کوشش سے چھپوانا تھا ۔ انھوں نے یہ سب کام مکمل کئے ۔

آپ کی قابلیت و بصیرت دیکھ کر سرکار آیت اللہ سید محمد کاظم طباطبائی ، آیت اللہ سید اسماعیل صدر ، آیت اللہ شیخ عباس آل کاشف الغطاء ، آیت اللہ محمد حسین مامقانی  و آقای سید ابوالحسن لکھنوی نے ایسے اجازے مرحمت فرمائے جن سے آپ کی فقاہت مسلم ہوگئی ۔

شیعہ کانفرنس نے 1326 ھ میں صدر منتخب کیا ۔ اور 1329 ھ میں آپ ایران و عراق گئے ۔

نواب حامد علی خان آف رام پور نے آپ کو ریاست کے محکمہ تعلیم کا ڈائریکٹر معین کیا اور یہ اختیار دیا کہ جب اور جتنی مدت چاہیں رام پور رہیں اور جب چاہیں لکھنو چلے جائی ۔

1327 ھ میں بڑے فرزند سید محمد اور 1341 ھ میں چھوٹے بیٹے محمد کاظم نے رحلت کی ۔ دوجوان فارغ التحصیل و با عمل بیٹوں کے داغ نے انھیں نڈھال کردیا تھا مگر ان کی ہمت نہ ٹوٹی ۔ وہ کام کی دھن میں لگے رہے ۔

انھیں جدید تبلیغی ضرورتوں کا خیال تھا ۔ وہ منور الفکر آدمی تھے ۔ بدلتے ہوئے ماحول میں دین کے مسائل کا گھر گھر پہنچانا ان کا نصب العین تھا ۔ وہ قدیم و جدید  تعلیمی وسائل کا بروئے کار لانے کی فکر میں رہے ۔ آخر خدا نے ان کے ہاتھوں برصغیر میں پہلی مرتبہ یہ منصوبہ پورا کیا ۔ اس منصوبے کے نتیجے میں : مدرسہ ناظمیہ ، مدرسۃ الواعظین ، مؤید العلوم، الواعظ اور انگریزی کا مسلم ریویو، اور جناب مفتی محمد عباس صاحب کی تصانیف انگریزی میں ، تفسیر قرآن مجید و صحیفہ کاملہ جیسی پچاس کتابیں چھپوائیں جن میں تجلیات ، سوانح مفتی محمد عباس بھی ہے ۔ اس کتاب نے گلستان لکھنو کا گل صدبرگ دست خزاں سے چھپا لیا ۔

 

پریس

اشاعت کتب و رسائل کے لئے مدرسے میں انگریزی اور اردو پریس قائم کیا ۔

 

کتب خانہ

تعلیم و تحقیق کے لئے مدرسۃ الواعظین کا کتب خانہ بہت بڑا اور نوادر کا مجموعہ ہے ۔

 

تربیت

جناب مرحوم ، مردم شناسی میں کمال رکھتے تھے ۔ انھوں نے مدرسے کے طلبا میں ہونہار تلامذہ کی خصوصی تریت سے انھیں جوہر قابل بنا دیا ۔ جن میں مولانا سبط حسن صاحب قبلہ اور مولانا عدیل اختر صاحب ، حافظ کفایت حسین صاحب ، مولانا یوسف حسین صاحب کے نام زبان زد ہیں ۔ نجم الملۃ کی مردم شناس اور دور رس نگاہ نے جسے جہاں کے لئے تجویز یا وہ شخص تمناؤں کے مطابق نکلا اور نصف صدی سے لوگ اس بزرگ کے شکر گزار ہیں ۔

 

مجالس و محافل سے عشق تھا ، محرم کی مجلسوں میں اہتمام خاص فرماتے تھے اور ۱۵ شعبان کا میلاد تو برصغیر میں مشہور تھا ۔ اس میلاد میں سونے شاندی کے گیہوں تقسیم فرماتے تھے ۔

 

آپ نے اقتدار و مرجعیت کا عروج دیکھا ۔ آپ کے شاگرد اور مبلغین دنیا بھر میں تھے اس لئے مغرب و مشرق میں آپ مقتدا مانے جاتے تھے ۔ حکومت ان کا احترام کرتی تھی ۔ کچہری کی حاضری سے مستثنی تھے ۔ شمس العلما لقب تھا ۔

پگٹ کمیٹی ہو یا السپ کمیشن یا کوئی اور بڑا مرحلہ ، جناب نجم الملۃ کے بیان اور آپ کی رائے کو بنیادی درجہ دیا جاتا تھا ۔

لکھنو ایجی ٹیشن میں آپ کے ہمہ گیر اثر نے حکومت کو ہلادیا تھا ۔ ناصر الملۃ سے انتہائی گہرے برادرانہ روابط تھے ۔ ایک دوسرے کی رائے کے بغیر کوئی کام سرانجام نہ پاتا تھا ۔

علما فرنگی محل سے قریبی محبتانہ روابط تھے ۔ میں نے اکابر علما فرنگی محل کو جنازے میں دھاڑیں مار مار کر روتے دیکھا ہے ۔

جناب مرحوم کے مکان کے سامنے میدان تھا ۔ اس میں چھپر کے سائے میں چٹائی کا فرش تھا ۔ جناب مرحوم وہیں تشریف رکھتے ، وہیں امراء و نوابین و حکام سے ملتے ، وہیں پڑھاتے اور سائلین کو مسائل کا جواب غربا کو امداد دیتے ۔ ان کی سرکار غریب پرور اور علم نواز تھی۔ ان کے وجود سے برصغیر میں علم و علما کا وقار تھا ۔ ان کی رائے سیاست کا نچوڑ ، ان کا فیصلہ تدبر کا نمونہ ، ان کی صدا اثر انگیز تھی ۔

ان کے مواعظ رمضان میں عموما بشارتیں اور اعمال کے ثواب بیان فرماتے تھے ۔

ابھرتا ہوا قد ، آڑی ٹوپی ، گلے میں ڈوپٹہ ، سفید قبا، پیروں میں مخملی کفش، فنس کی سواری ، نورانی چہرہ ، منور بڑی گھنی داڑھی ، ثقاہت و ہیبت کا نمونہ محی الشریعت ان کا بڑا اچھا اور موزوں لقب تھا ۔ 

 

اولاد

مولانا سید محمد صاحب

مولانا سید محمد کاظم صاحب

 

تلامذہ

نجم العلما کے شاگر اس آخری دور میں غالبا دوسرے علما سے تعداد میں بہت زیادہ تھے ۔ جن کی فہرست بہت طویل ہے ۔

مزید دیکھیں

تاسیس مدارس

جناب مولانا سید ابوالحسن عرف ابو صاحب قبلہ کی تحریک سے 1308 ھ میں جناب مرزا محمد عباس علی خان مرحوم نے مدرسہ مشارع الشرایع ، مدرسہ ناظمیہ قائم کیا جس کے سربراہ جناب نجم الملۃ قرار دئے گئے ۔ نیت کی پاکیزگی اور سربراہ کا خلوص رنگ لایا ۔ جناب نجم الملۃ نے اس مدرسے میں اس قدر محنت سے کام کیا کہ بر صغیر کے گوشے گوشے سے طلبا ناظمیہ میں آئے اور فارغ التحصیل ہوکر جانے لگے۔  مدرسے کے پندرہ سال کا درس پڑھنے کے بعد فارغ التحصیل کو ممتاز الافاضل کے لقب و سند سے سرفراز کیا جاتا تھا ۔ مدرسہ سلطان المدارس و ناظمیہ ہماری صدی کے سب سے بڑے اور باقاعدہ دینی مدرسے تھے جن سے صدہا ادیب ، مصنف، خطیب ، طبیب، حافظ، قاضی اور مدرس پیدا ہوئے ۔ ان کے فیوض سے کشمیر سے دکن اور ہند سے افریقہ تک روشنی پھیلی۔

جناب نجم الملۃ نے انتہائی تدبر ست مدرسے کی نئی عمارت بنوائی ۔ مدرسے کو روز افزوں ترقی دی اور آخر میں اسی مدرسے کے ایک گوشے میں آسودہ لحد ہوئے ۔

 

تاسیس مدرسۃ الواعظین

1338 ھ میں جدیدتر تبلیغی مساعی کے لئے ایک عظیم الشان منصوبے کا آغاز مدرسۃ الواعظین کے نام سے کیا ۔ جناب راجہ صاحب محمود آباد مرحوم اور ان کے برادر مغفور کے سرمائے سے یہ ادارہ قائم ہوا۔ مدرسہ میں برصغیر افاضل طلاب کو تربیت دی گئی اور انھیں گوشے گوشے میں پہنچایا ۔ یہ مبلغ افریقہ و عراق ، تبت و برما، غرض دنیا بھر میں اسلام کا پیغام اور تعلیمات نبی ﷺ و آل نبی علیہم السلام پھیلانے لگے۔

مدرسے میں ایک نشر و اشاعت کا وسیع الذیل شعبہ قائم کیا جس سے علمی اور تبلیغی کتابیں اور ماہنامہ الواعظ چھپ رہا تھا ۔ اردو میں براہ راست اردو ترجمے کے ذریعے افکار و تعلیمات کی اشاعت ہوئی ۔

انگریزی میں قرآن مجید کا ترجمہ صحیفہ کاملہ کا ترجمہ اور مجالس المومنین کا ترجمہ اور ماہنامہ مسلم ریویو انگریزی میں چھپتا رہا۔

مزید دیکھیں

تصانیف

جناب مرحوم نے مضمون اور مقالے لکھے، رسالے تصنیف کئے ، قصائد لکھے ، حواشی قلم بند کئے ۔ دوسروں کی کتابیں درست کیں ، مفتی صاحب قبلہ کی کتابیں ایڈیٹ کیں جن میں سے چند تالیفات کے نام یہ ہیں

المحاسن

سرادق عفت

سینکڑوں مسائل کے جوابات و فتاوی

ہزاروں خط عربی و فارسی و اردو میں

دیوان اشعار عربی

النبوۃ و الخلافۃ

التوحید

مزید دیکھیں

وفات

پچھتر برس کی عمر اور محنت طلب اور مسلسل کام نے انھیں کمزور کردیا تھا۔ ضعف نے طول کھینچا صاحبِ فراش ہوگئے ۔ حالت بگڑی تو ماتمی دستے فریادی اور دعائیہ جلوس لے کر شہر میں نکل آئے ۔ علاج ہوا لیکن طلب آچکی تھی ۔

یکشنبہ 17 صفر 1357 ھ کو داعی اجل کو لبیک کہی، شہر میں کہرام برپا ہوگیا ، کوچہ شاہ چھاچھڑا کے شریعت کدے پر گریہ و بکا کا شور قیامت برپا دکھائی ورات بھر لوگوں کے قافلے لکھنو پہنچتے رہے ۔

صبح کو سرکار ناصر الملت کی فریاد اور علما فرنگی محل کے آنسوؤں کی بارش میں جنازہ اٹھا ، انسانوں کا سمندر دریائے گومتی کو روانہ ہوا۔ امیر غریب ، سنی شیعہ ، حکام اور زعما، علما و طلبا کا اتنا بڑا مجمع کم دیکھا گیا تھا ۔ لاکھوں آدمیوں نے مشایعت کی دریا پر غسل ہوا کھلے میدان میں نماز ہوئی اور شام کے قریب مدرسہ ناظمیہ میں سپرد لحد ہوئے ۔

مزید دیکھیں
تصاویر
آیت الله العظمی سید نجم الحسن نجم الملة
.
آیت الله العظمی سید نجم الحسن نجم الملة
آیت الله العظمی سید نجم الحسن نجم الملة
.
1ڈاؤن لوڈز
زوم
ڈاؤن لوڈ
شیئر کریں
آیت الله العظمی سید نجم الحسن نجم الملة آیت الله العظمی سید نجم الحسن نجم الملة آیت الله العظمی سید نجم الحسن نجم الملة آیت الله العظمی سید نجم الحسن نجم الملة آیت الله العظمی سید نجم الحسن نجم الملة آیت الله العظمی سید نجم الحسن نجم الملة مدرسه مشارع الشرائع جامعه ناظمیه آیت الله العظمی سید نجم الحسن نجم الملة
متعلقہ لنکس
دیگر علما
کامنٹ
اپنا کامنٹ نیچے باکس میں لکھیں
بھیجیں
نئے اخبار سے جلد مطلع ہونے کے لئے یہاں ممبر بنیں
سینڈ
براہ کرم پہلے اپنا ای میل درج کریں
ایک درست ای میل درج کریں
ای میل رجسٹر کرنے میں خرابی!
آپ کا ای میل پہلے ہی رجسٹر ہو چکا ہے!
آپ کا ای میل کامیابی کے ساتھ محفوظ ہو گیا ہے
ulamaehin.in website logo
ULAMAEHIND
علماۓ ہند ویب سائٹ، جو ادارہ مہدی مشن (MAHDI MISSION) کی فعالیتوں میں سے ایک ہے، علماۓ کرام کی تصاویر اور ویڈیوز کو پیش کرتے ہوۓ، ان حضرات کی خدمات کو متعارف کرواتی ہے۔ نیز، اس سائٹ کا ایک حصہ ہندوستانی مدارس اور کتب خانوں، علماء کی قبور کو متعارف کروانے سے مخصوص ہے۔
Copy Rights 2024