تاریخ علمائے بر صغیر کے آخری عظیم علما میں عظیم ترین عالم دین جن کے جذبہ اشاعت اسلام نے تبلیغ کی نئی طرح ڈالی اور فکر روشن نے زوال آمادہ ملت کو شمع راہ دی ۔
مولانا سید نجم الحسن بن سید اکبر حسین رضوی 6 ذی الحجہ ۱۲۷۹ ھ کو امروہہ میں پیدا ہوئے ۔ سید اکبر حسین صاحب بڑے عابد و زاہد ، فاضل و شاعر بزرگ تھے ۔ محلہ دانشمنداں میں رہتے تھے ۔ موصوف نے اپنے فرزند کو علم دین کے لئے مخصوص کردیا تھا ۔ ابجد خوانی و بسم اللہ کے بعد مولانا سید تفضل حسین صاحب سنبھلی کے درس میں بھیجا ۔ یہاں نو عمر نجم الحسن رضوی نے متوسطات تک نصاب مکمل کرکے عزم لکھنو کیا ۔
لکھنو میں تمام علوم اسلامیہ مشہور اساتذہ سے حاصل کیے۔ خصوصا جناب سید ابوالحسن ابو صاحب ، جناب مفتی محمد عباس صاحب ، جناب ملا علی نقی صاحب سے زیادہ فیض پایا۔
مولانا نجم الحسن صاحب بہت ذہین ، ذکی ، محنتی اور صاحب ذوق تھے ۔ ان کی استعداد نے اساتذہ کو میربان کردیا اور جناب مفتی محمد عباس صاحب قبلہ نے تو خویشی اور فرزندی کا شرف بخشا ۔ کہتے ہیں کہ جناب مفتی صاحب نے جو اجازہ آپ کو مرحمت فرمایا وہ کسی شاگرد کو نہیں دیا تھا ۔
مولانا نجم الحسن نے استاد کی زندگی میں درس دینا شروع کردیا تھا ۔ تفسیر و حدیث ، فقہ و اصول ، ادب و ہیئت میں آپ کی شہرت دور دور تک پہنچ گئی تھی ۔
مولانا سید محمد مہدی صاحب ادیب اپنے گھر پر پندرہ دن بعد عربی ادب و شعر کا اجتماع کرتے تھے ۔ مولانا نجم الحسن صاحب نے اپنے فصیح و بلیغ قصائد و اشعار سے یہاں ہمیشہ برتری حاصل کی ۔ انھوں نے ابتدا میں اپنی زندگی کا نصیب العین بنایا تھا ۔ درس دینا اور اپنے استاد مفتی محمد عباس صاحب کے تصانیف کو مدون و مرتب کرکے قابل اشاعت بنانا اور پھر سعی و کوشش سے چھپوانا تھا ۔ انھوں نے یہ سب کام مکمل کئے ۔
آپ کی قابلیت و بصیرت دیکھ کر سرکار آیت اللہ سید محمد کاظم طباطبائی ، آیت اللہ سید اسماعیل صدر ، آیت اللہ شیخ عباس آل کاشف الغطاء ، آیت اللہ محمد حسین مامقانی و آقای سید ابوالحسن لکھنوی نے ایسے اجازے مرحمت فرمائے جن سے آپ کی فقاہت مسلم ہوگئی ۔
شیعہ کانفرنس نے 1326 ھ میں صدر منتخب کیا ۔ اور 1329 ھ میں آپ ایران و عراق گئے ۔
نواب حامد علی خان آف رام پور نے آپ کو ریاست کے محکمہ تعلیم کا ڈائریکٹر معین کیا اور یہ اختیار دیا کہ جب اور جتنی مدت چاہیں رام پور رہیں اور جب چاہیں لکھنو چلے جائی ۔
1327 ھ میں بڑے فرزند سید محمد اور 1341 ھ میں چھوٹے بیٹے محمد کاظم نے رحلت کی ۔ دوجوان فارغ التحصیل و با عمل بیٹوں کے داغ نے انھیں نڈھال کردیا تھا مگر ان کی ہمت نہ ٹوٹی ۔ وہ کام کی دھن میں لگے رہے ۔
انھیں جدید تبلیغی ضرورتوں کا خیال تھا ۔ وہ منور الفکر آدمی تھے ۔ بدلتے ہوئے ماحول میں دین کے مسائل کا گھر گھر پہنچانا ان کا نصب العین تھا ۔ وہ قدیم و جدید تعلیمی وسائل کا بروئے کار لانے کی فکر میں رہے ۔ آخر خدا نے ان کے ہاتھوں برصغیر میں پہلی مرتبہ یہ منصوبہ پورا کیا ۔ اس منصوبے کے نتیجے میں : مدرسہ ناظمیہ ، مدرسۃ الواعظین ، مؤید العلوم، الواعظ اور انگریزی کا مسلم ریویو، اور جناب مفتی محمد عباس صاحب کی تصانیف انگریزی میں ، تفسیر قرآن مجید و صحیفہ کاملہ جیسی پچاس کتابیں چھپوائیں جن میں تجلیات ، سوانح مفتی محمد عباس بھی ہے ۔ اس کتاب نے گلستان لکھنو کا گل صدبرگ دست خزاں سے چھپا لیا ۔
پریس
اشاعت کتب و رسائل کے لئے مدرسے میں انگریزی اور اردو پریس قائم کیا ۔
کتب خانہ
تعلیم و تحقیق کے لئے مدرسۃ الواعظین کا کتب خانہ بہت بڑا اور نوادر کا مجموعہ ہے ۔
تربیت
جناب مرحوم ، مردم شناسی میں کمال رکھتے تھے ۔ انھوں نے مدرسے کے طلبا میں ہونہار تلامذہ کی خصوصی تریت سے انھیں جوہر قابل بنا دیا ۔ جن میں مولانا سبط حسن صاحب قبلہ اور مولانا عدیل اختر صاحب ، حافظ کفایت حسین صاحب ، مولانا یوسف حسین صاحب کے نام زبان زد ہیں ۔ نجم الملۃ کی مردم شناس اور دور رس نگاہ نے جسے جہاں کے لئے تجویز یا وہ شخص تمناؤں کے مطابق نکلا اور نصف صدی سے لوگ اس بزرگ کے شکر گزار ہیں ۔
مجالس و محافل سے عشق تھا ، محرم کی مجلسوں میں اہتمام خاص فرماتے تھے اور ۱۵ شعبان کا میلاد تو برصغیر میں مشہور تھا ۔ اس میلاد میں سونے شاندی کے گیہوں تقسیم فرماتے تھے ۔
آپ نے اقتدار و مرجعیت کا عروج دیکھا ۔ آپ کے شاگرد اور مبلغین دنیا بھر میں تھے اس لئے مغرب و مشرق میں آپ مقتدا مانے جاتے تھے ۔ حکومت ان کا احترام کرتی تھی ۔ کچہری کی حاضری سے مستثنی تھے ۔ شمس العلما لقب تھا ۔
پگٹ کمیٹی ہو یا السپ کمیشن یا کوئی اور بڑا مرحلہ ، جناب نجم الملۃ کے بیان اور آپ کی رائے کو بنیادی درجہ دیا جاتا تھا ۔
لکھنو ایجی ٹیشن میں آپ کے ہمہ گیر اثر نے حکومت کو ہلادیا تھا ۔ ناصر الملۃ سے انتہائی گہرے برادرانہ روابط تھے ۔ ایک دوسرے کی رائے کے بغیر کوئی کام سرانجام نہ پاتا تھا ۔
علما فرنگی محل سے قریبی محبتانہ روابط تھے ۔ میں نے اکابر علما فرنگی محل کو جنازے میں دھاڑیں مار مار کر روتے دیکھا ہے ۔
جناب مرحوم کے مکان کے سامنے میدان تھا ۔ اس میں چھپر کے سائے میں چٹائی کا فرش تھا ۔ جناب مرحوم وہیں تشریف رکھتے ، وہیں امراء و نوابین و حکام سے ملتے ، وہیں پڑھاتے اور سائلین کو مسائل کا جواب غربا کو امداد دیتے ۔ ان کی سرکار غریب پرور اور علم نواز تھی۔ ان کے وجود سے برصغیر میں علم و علما کا وقار تھا ۔ ان کی رائے سیاست کا نچوڑ ، ان کا فیصلہ تدبر کا نمونہ ، ان کی صدا اثر انگیز تھی ۔
ان کے مواعظ رمضان میں عموما بشارتیں اور اعمال کے ثواب بیان فرماتے تھے ۔
ابھرتا ہوا قد ، آڑی ٹوپی ، گلے میں ڈوپٹہ ، سفید قبا، پیروں میں مخملی کفش، فنس کی سواری ، نورانی چہرہ ، منور بڑی گھنی داڑھی ، ثقاہت و ہیبت کا نمونہ محی الشریعت ان کا بڑا اچھا اور موزوں لقب تھا ۔
اولاد
مولانا سید محمد صاحب
مولانا سید محمد کاظم صاحب
تلامذہ
نجم العلما کے شاگر اس آخری دور میں غالبا دوسرے علما سے تعداد میں بہت زیادہ تھے ۔ جن کی فہرست بہت طویل ہے ۔