آپ نے عربی و فارسی کی ابتدائی کتب والد ماجد سے پڑھیں اور جب سن شعور کو پہنچے تو والد ماجد نے با قاعدہ دینی تعلیم کے لئے بنارس بھیجا اس وقت آپ کی عمر ۴ ار برس تھی۔ مدرسہ ایمانیہ میں آپ کا داخلہ ہوا۔ مولانا حکیم ناظم حسین صاحب گوپال پوری مدرسہ کے پرنسپل تھے جن کی نگرانی میں مدرسہ ایمانیہ رواں دواں تھا اگر چہ طلاب کی تعداد کم تھی مگر تعلیمی نظام بہت بہتر تھا۔ آپ نے میزان و منشعب سے تعلیم کا آغاز کیا۔ مولانا ناظم حسین صاحب کے علاوہ مولانا حسن رضا صاحب بنارسی اور مولانا ناصر حسین صاحب سے کتب متداولہ کی تحصیل کی اور بنیادی کتب کو مضبوط کیا۔ مگر بیماری کے سبب ایک مدت تک تعلیمی سلسلہ معطل رہا۔ جب صحت یاب ہو گئے تو پھر بنارس گئے ۔ اس دوران ۱۹۲۸ء جامعہ جواد یہ کا قیام عمل میں آیا آپ نے جامعہ جوادیہ میں داخلہ لے لیا۔
مولانا سید محمد یوسف صاحب قبلہ زنگی پوری مدرسہ کے پرنسپل منتخب کئے گئے وہ اعلیٰ درجات کو پڑھاتے تھے آپ نے شرح لمعہ ، شرح کبیر، رسائل و مکاسب کا درس مولانا سید محمد یوسف صاحب سے لیا آپ کو فقہ و اصول میں ملکہ اور کامل عبور حاصل تھا۔
آپ تعلیم کے دوش بدوش تربیت کو بھی لازم شمار کرتے تھے یہی وجہ ہے کہ مولانا سید محمد یوسف صاحب کے شاگرد علم کے ساتھ تربیت سے بھی آراستہ تھے۔ اس دور کی دوسری اہم شخصیت علامہ سید حمد رضی زنگی پوری کی تھی جو مدرسہ جوادیہ کے وائس پرنسل تھے اور طلاب کو منطق، فلسفہ اور ادبیات کا درس دیتے تھے۔
مولانا مختار صاحب نے حمد اللہ ،صدرا، حماسہ اور حریری کی تعلیم علامہ رضی سے حاصل کی جنھیں عربی ادب پر اعلیٰ دست گاہ تھی ۔
آپ اپنے درجہ میں تنہا تھے کیونکہ آپ کے ساتھی مولوی ضیاء اللہ زنگی پوری درمیان ہی سے مدرسہ چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ اس طرح تمام اسا تذہ کی توجہ آپ ہی کی طرف متمرکز رہی جس سے آپ نے بھر پور فائدہ اٹھایا۔ مولا ناظہیر حسن صاحب پاروی اور مولانا محمد مہدی صاحب زنگی پوری آپ سے سینئر تھے غرض کہ ان بزرگ اساتذہ کے زیر سایہ آپ نے جامعہ جوادیہ سے فخر الا فاضل کی سند حاصل کی مگر علمی تنگی نہ بجھ سکی لکھنو کا قصد کیا اور مدرسۃ الواعظین میں داخلہ لیا۔ یہ آپ کی خوش بختی تھی کہ اس دور میں مولانا سید عدیل اختر صاحب طاب ثراه مدرسة الواعظین کے پرنسپل تھے جو ایک اعلی استاد ہی نہیں بلکہ مہربان مربی بھی تھے وہ اپنے شاگردوں سے پدرانہ شفقت فرماتے تھے ایسے شفیق و مہربان استاد سے آپ نے بہت کچھ حاصل کیا۔ مولا نا عدیل اختر صاحب بڑے با اصول ، وقت کے پابند، دقیق انظر محنتی مخلص متقی، پرہیز گار عالم تھے سادگی اور گوشہ نشینی آپ کا خاصہ تھا شہرت سے دور رہتے اور کردار سازی سے محبت کرتے تھے تمام علماء آپ کی قدر کرتے تھے سرکار نجم العلماء مولاناسید نجم احسن صاحب اعلی اللہ مقامہ آپ سے بے حد محبت کرتے تھے۔ آپ نے بڑی محنت و جانفشانی سے ہندی سنسکرت زبانیں سیکھیں اور آریوں سے مناظرے کئے۔ علمی خیانتیں ، تدلیس خیلی کے علاوہ تاریخ احمدی کے حوالے اور اس کا اضافہ آپ کی اہم علمی خدمات ہیں۔ مولا نا مختار صاحب نے تبلیغ کا فن آپ ہی سے سیکھا۔