جناب عمدۃ العلما مولانا سید کلب حسین صاحب قبلہ نصیر آباد جائس کے معزز خاندان سے تھے ۔ ان کے والد علام قدوة العلما مولانا سید آقاحسن صاحب لکھنو کے اساطین علماء اعلام میں بڑی شہرت رکھتے تھے ۔ آپ کے نانا جناب میر آغا صاحب متوفی ۱۳۲۳ فقہاء لکھنو میں بڑے فقیہ تھے ۔ مولانا کلب حسین صاحب قبلہ نے 6 شعبان 1311 ھ بمقام لکھنو دلاوت پائی اور علی اختر تاریخی نام ہوا۔
ابتدائی تعلیم کے بعد آپ سلطان المدارس میں داخل ہو گئے جو آپ کے گھر سے قریب تھا۔ مدرسے کے اساتذہ میں جناب محمد رضا صاحب جناب سید محمد ہادی صاحب قبلہ، جناب سید باقر صاحب قبلہ اور گھر پر اپنے والد بزرگوار سے پڑھ کر صدرالافاضل کی سند لی۔
گھر کی روایت اور والد بزرگوار کی مرجعیت کے شباب میں مولانا کلب حسین صاحب ناز و نعم اورعلم وعمل کے ملے جلے ماحول میں پلے بڑھے۔ وہ شگفتہ مزاج شاعر اور ذہین طالب علم تھے۔ مدرسہ کے ساتھیوں میں مولانا عبد الحسین ، مولانا میرن صاحب مولانا زین العابدین صاحب اور دوسرے بلند مرتبہ حضرات کی معیت نے جوهر چمکائے ۔ مولانا آقا حسن صاحب نے صدرالافاضل کے بعد فرزند کو نجف اشرف بھیج دیا۔
تین سال تک نجف اشرف و کربلا معلے کے اکابر علما سے استفادہ کے بعد لکھنو آئے اور والد علام کے معاملات میں ہاتھ بٹانا شروع کیا ۔خدا نے قوت بیان اور ملکہ خطابت مرحمت فرمایا تھا۔ اس لئے منبر کو زینت بخشی اور دن بدن ترقی کرتے گئے، اس وقت شیعہ خطابت کے افق پر شمس العلما خطیب اعظم مولانا سبط حسن ،مولانا محمد رضا صاحب فلسفی ، مولانا محمد حسین صاحب محقق ہندی جیسے اکابر ضوفشاں تھے ۔ جناب مولانا کلب حسین نے مطالعہ اور محنت سے ان بزرگوں کے سامنے شہرت وناموری کے مدارج عالیہ طے کیے۔
1348 ھ میں جناب قدوة العلما مولانا آقا حسن صاحب کی رحلت کے بعد مولانا کلب حسین عرف کبن صاحب پر بے شمار ذمے داریوں کا بوجھ آن پڑا ۔ مسجد آصف الدولہ کی امامت جمعه و جماعت ، اوقاف کے انتظامات ، جناب مرحوم کے مقلدین کا رجوع ، قومی معاملات کی دیکھ بھال، والد کے ساتھ علوم اسلامی کی کتابوں کا سلسلہ اشاعت شروع کیاتھا ۔ اس سلسلے کا انصرام امرا و غربا سے ملاقات، سینکڑوں کے خطوں کے جواب اس پر ذاکری مستزاد، مولانا کبن صاحب قبلہ نے تمام اموریں سنبھالے کہ لوگوں کو جناب مرحوم کی کمی محسوس نہ ہونے دی ۔ شدید سے شدید مشکلات میں خندہ پیشانی سے ملنا، بڑے سے بڑے دشمن کو گلے لگانا، غریبوں کی خدمت اور خدمت میر جفا کشی ، قوم کی اصلاح وفلاح میں شب و روز محنت، ہر اچھے کام میں تعاون ، ہر انجمن سے محبت مخالفت کی پرواہ کے بغیر ممکن حد تک شرکت ، متحارب اور مخالف گروہوں سے رابطہ ان کے کمالات پردلیل تھا۔
ہر انجمن انھیں اپنا سرپرست جانتی تھی ، برصغیر کے ہر گوشے تک ان کی آواز پہنچتی تھی ، شیعہ ایجی ٹیشن میں کی قید اورسنی شیعہ اسٹیج پر ان کی تقریر ، شیعوں کی زعامت اور سنیوں سے اتحاد ان کی شخصیت کا روشن پہلو ہے ۔ ان صفات نے انھیں حیرت انگیز محبوبیت بخشی تھی۔ جناب نجم الملت اور ناصر الملت کے بعد مرجعیت میں ان کی ذات منفرد ہوگئی تھی ۔ ان کی سب سے بڑی مصروفیت مجالس تھیں۔ وہ برصغیر کے گوشے گوشے میں پہنچے مگر جمعہ کے دن آصف الدولہ مسجد میں نماز بہ ہر حال ادا کی ۔ محرم میں عشرہ مجالس کی گنتی دشوار ہے لیکن غفران مآب کے امام باڑے اور چھوٹی رانی کے عزاخانۂ اقبال منزل کی مجلسیں یادگار تھیں۔ خطابت میں ان کا اسلوب بہت دل کش تھا۔ ان کا لہجہ نرم ، انداز بیاں سادہ ، زبان شیریں و فصیح ، مطالب لطيف و عام فہم و عالمانہ، کوثر کی روانی ، سلسبیل کا بہاؤ ، منبر کا وقار اور آواز کا دھیما پن، نہ چیخ پکار نہ دبی ہوئی صدا ، ہزاروں کا مجمع مگر دور دور تک آواز پہنچ رہی ہے۔ آواز کے ساتھ سامعین کا حضور ذہن ، درود و داد گریہ و فریاد ساتھ ساتھ جب چاہا مجمع درود پڑھنے لگا۔ جب چاہا رلا دیا ۔ پھر مصائب میں تصنع نہ فضائل میں شوریہ معلوم ہوتا تھا جیسے سمندر کی سطح پر ہوا کے جھونکے ہلکا ہلکا تموج پیدا کر رہے ہیں۔ برصغیر کے راجہ مہاراجہ ، امیر غریب ہر ایک بلاتا۔ ہر ایک قربان ہوتا اور ہر ایک غیرمعمولی حد تک پسند کرتا تھا ۔
افریقہ، عراق، ایران ، ہر جگہ ان کی عزت تھی اور تمام شیعہ ان کو اپنا مرکز عقیدت مانتے تھے۔
علم ، ذہانت ، عمل ، تقدس بے جگری ،بے غرضی ،خلوص، ایثار غرض حسن اخلاق وحسن کردار کی حسین ترین مثال تھے۔ انہیں تمام سپاہیانہ فن آتے مگر دیکھئے تو سادگی کی انتها تھی۔ بیٹھیے تو محبت وشفقت کا مجسمہ ، کسی کا دل دکھانا ممکن ہی نہ تھا ۔ ہر شخص سمجھتا تھا جناب کو جتنی محبت اس سے ہے کسی سے نہیں۔ لوگوں کے گھروں پر بے تکلف جا نا ۔ چھوٹے بڑوں سے بے تکلف ملناجب یاد آتا ہے تو کلیجہ منہ کو آتاہے۔
قوم کے فکری ، اخلاقی ، علمی اور اقتصادی معیار بلند کرنے کے لئے رسالے نکالے۔ الناطق ، بلاغ، سحاب ادارے قائم کیے ۔ بیت المال ، اداره اقتصادیات ۔ جماعتوں اور اداروں کے لئے بنیادی کام کیے۔ مدرسہ ناظمیہ، یتیم خانہ ، شیعہ کانفرنس ، سرفراز اخبار اور آخر میں سلطان المدارس کی عمارت کا حکومت سے بچاؤ۔
ان کی عظمت و کارکردگی سے حکومت جھکتی تھی۔ مسلمان بھروسہ کرتے تھے اور شیعہ ان کا حکم مانتے تھے ۔ آخری دور میں ان جیسی باکمال شخصیت کا جواب نہ تھا ۔ وہ عراق و ایران گئے۔ وہ پاکستان آئے سب نے جانا کہ ان کا سردار آیا ہے اور ایسی محبت و عقیدت کے مظاہرے کیے جس کا جواب نہیں ۔ جناب مرحوم مولانا کلب عابد صاحب کی واپسی عراق ۱۹۴۸ء کے بعد آہستہ آہستہ انھیں اپنا معادن بناتے گئے ۔ خدا نے فرزند بھی ایسا سعید وصالح با صلاحیت و باوقار عطا کیا جس کی مثال پیش نہیں تھی ۔ مگر وہ اپنے معاملات اور ذمہ داریوں سے فرار نہیں چاہتے تھے۔ اور فرزند کو آگے لاکر آرام مطلوب نہ تھا ۔وہ جب تک چل پھر سکے کام کرتے رہے ۔ صاحب فراش ہوئے جب بھی کچھ نہیں تو خطوں کے جواب ہی لکھا کیے ۔ ایک وقت آیا جو مجبور ہو گئے تھے۔ پھر بھی فينس میں بیٹھ کر کلب صادق صاحب کی مجلس سننے گئے اور کہا خدا کا شکر ہے کہ منبر پر میری آواز اور محراب میں میری تصویر گئی۔
بہتر تہتر برس کی عمر ساری زندگی کی محنت نے کمزور سے کمزور کر دیا خطرناک بیماری میں ہر ممکن علاج کیا گیا قیمتی اور نادر دوائیں دی گئیں مگر وقت آخر آیا اور عمدة العلما 17 جمادی الاولی ۱۳۸۳ھ کو دنیا سے رخصت ہوگئے ۔ سینکڑوں بیوہ اور یتیم لاوارث ہو گئے اور قوم کا مرکز قومی ختم ہوگیا۔ شام غریباں کا پہلا ذاکر اور گزشتہ روایت کا عظیم سرچشمہ رک گیا ۔ تمام عالم تشیع میں کہرام مچ گیا اور محرم کے بعد دوبارہ محرم آگیا لکھنو میں قافلے پہنچنے لگے ۔ جنازه دریا پرگیا، ہندو مسلمان سنی شیعہ ہزاروں کا مجمع اور لاکھوں تعزیت اور پرسہ دینے والوں کا اجتماع تھا۔ جنازے کے ساتھ بے شمار ماتمی دستے تھے۔ امام باڑہ غفران مآب میں زیر منبر دفن کیے گئے تو بے شمار لوگوں نے قبر کی مٹی تبرک کے طور پر اٹھائی ۔ جناب کاسوگ یوں منایا گیا کے معلوم نہیں ہوا کہ یہ فقط میرے گھر کا سانحہ ہے ۔
تالیفات و خدمات
مولانا کلب حسین صاحب قبلہ بڑے فعال اور محنتی تھے۔ اس کے باوجود وہ سینکڑوں کے جواب مسئلوں پر فتوے اور مضامین ومقالات لکھتے تھے ان کے مستقل تالیفات میں ایک کتاب
مجالس الشیعہ ہے جو پاکستان میں چھپ چکی ہے۔
اولاد
مولانا کلب عابدصاحب
سید کلب ہادی صاحب
کلب صادق صاحب
کلب باقر صاحب
جناب کلب محسن صاحب