مولانا سید ابراہیم صاحب کے فرزند 18 ذی الحجہ سنہ 1295 ھ ضلع لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔
سنہ 1298ھ کو اپنے والد کے ساتھ عراق گئے اور تحت قبہ بسم اللہ خوانی ہوئی ، دوسری مرتبہ 1305 ھ میں زیارات عراق اور ایران سے مشرف ہوئے۔
مرزا محمد حسن صاحب کشمیری سے اور مولوی سید محمد صاحب مدرس مدرسہ ناظمیہ اور مولوی سید سرفراز حسین صاحب اور مولوی شیخ فدا حسین صاحب ملا سید علی اصغر صاحب اور مولوی مظفر علی خان صاحب مراد آبادی اور تاج العلماء سے درسیات کی تکمیل کی۔
عراق جانے سے قبل تقریر و تحریر کا سلسلہ شروع کردیا تھا مثلا سفر ملتان میں سنی عالم سے مناظرہ کیا جس سے اہل ملتان اب تک ممنون ہیں۔ ایک شیعہ مولوی صاحب سے معراج جسمانی پر مباحثہ کیا ایک آریہ سے ذبح حیوانات پر بحث کی اور عزت و فتح پائی۔
آپ نے عراق کے متعدد سفر کیے۔ ۱۳۲۵ ھ میں مع اہل و عیال۔ ۱۳۲۶ میں اس سفر میں غازی الدین حیدر بادشاہ اودھ کے وقف اور اس کے وظائف کی تقسیم کا مسلئہ طے کرایا۔
۱۳۲۸ھ لکھنو میں یادگار علماء کے نام سے خاندان اجتہاد کے اکابر کے لئے انجمن قائم ہوئی۔ علامہ ہندی نے تیس سال تک اس میں کام کیا۔
۱۳۳۱ھ میں وثیقہ موقوفہ نواب ممتاز محل کی تقسیم کے لئے کربلا گئے۔ اسی زمانے میں علم شوال تا ۱۶ شوال نجف میں قحط آب ہوا تو مولانا روزانہ کوفے سے پانی منگوا کے مفت میں تقسیم فرماتے تھے۔
اسی سال جمادی الاولی ۱۳۳۱ ھ میں مدرسہ دینیہ جعفریہ کی بنیاد رکھی جس میں سو سوا سو طلاب جغرافیہ، ہندسہ، حساب، ترکی، عربی و علوم دینیہ پڑھتے تھے۔ اس مدرسے پر مولانا نے بڑی محنت کی تھی۔
۱۳۳۳ ھ کی جنگ عظیم میں آپ نے عوام کی بڑی خدمت کی اور ۴۵ زن و فرزند افراد کا قافلہ کے کر بہزار دقت بصرے آئے اور ربیع الثانی ۱۳۳۴ ہندوستان واپس پہنچے۔
۱۳۳۵ ھ میں انجمن دارالتبلغ قائم کی۔
عراق کے علماء میں آیت اللہ مرزا فتح اللہ شیرازی مشہور بہ شیخ الشریعت، آیت اللہ سید محمد کاظم طباطبائی اقای محمد باقر طباطبائی، اقای حاج شیخ حسین مازندرانی رحمہم اللہ نے مولانا سید احمد کو اجازت دیے جن میں سے جناب ملا محمد کاظم خراسانی نجفی نے اجازہ میں لکھا:
فی الحقیقت علم وران صفحات منحصر بمثل ایشان ست پس امر ایشان امر من و طاعت ایشان طاعت من و فعل من.
مولانا سید احمد با عمل، مدبر اور مفکر عالم تھے۔ جمال الدین افغانی کی تحریک کا شباب تھا۔ انگریزوں سے نفرت بڑھ رہی تھی۔ مولانا سید احمد نے قومی مفادات کے تحفظ کی خاطر عراق میں قونصل برطانیہ سے ٹکر لی اور اوقاف لکھنو کی جو خطیر رقم لکھنو سے نجف و کربلا و غیرہ کے لئے جاتی تھی اس کا محسابہ کیا اور صحیح مستحقین تک پہنچانے اور عراق میں زائرین کے تحفظ کی سعی کی ۔ وطن آکر مولانا نے علامہ ہندی کے نام سے شہرت پائی ۔ وہ شہر شہر قریے قریے دورے کرتے رہے اور دینی ، سیاسی اور علمی مسائل کے لئے عملی منصوبے بنائے۔ انھوں نے آریوں ، ہندؤں اور مختلف مذاہب و ملل کے افراد سے مباحثے کئے ۔ پورے ملک کے دورے کرکے اسلامی تبلیغات کا کام انجام دیا ۔ بہت سے شہروں میں ذہنی اور علمی بیداری کے مرکز قائم کیے ۔
وہ طویل مدت تک کلکتے میں رہے اور وہاں تبلیغی کتابچے چھاپتے رہے۔ علامہ ہندی نے قوم کی علمی اور ذہنی ، سیاسی اور سماجی اصلاح و ترقی کے لئے پوری زندگی جد و جہد کی ۔
وفات
پنجشنبہ 20 شعبان 1366 ھ لکھنو میں رحلت فرمائی اور غفراں مآب کے امام باڑے میں دفن ہوئے۔
اولاد
مولانا سید محمد ابراہیم عرف سید محمد صاحب ملتان میں وفات پائی تاریخی نام سید ذوالفقار حسین تھا۔
سید محمد یوسف صاحب ، تاریخی نام سید خورشید حسن ہے
آقا حسین سید محمد مصطفی