مولانا شیخ محمد مصطفے جو ہر حکیم مسلم صاحب کے بڑے صاحبزادے تھے۔ آپ 14 ذیقعده 1312 ھ کو حسین گنج میں پیدا ہوئے۔ حکیم صاحب ۱۹۱۰ء میں بھاگل پور میں مطب کرتے تھے جہاں جو ہر صاحب انگر یز ی اسکول کے چھٹے درجہ میں تھے ایک روز حکیم صاحب نے سخت لہجے میں کہا کہ میں تم کو انگریزی نہیں بلکہ عربی پڑھوانا چاہتا تھا۔ جو ہر صاحب نے دوسرے روز بوریا بستر باندھا اور لکھنؤ کے لئے روانہ ہو گئے ۔ سلطان المدارس میں ان کی برادرانہ دوستی مولانا سید ابوالحسن صاحب سے ہوئی جو اس وقت درجات کے لحاظ سے جو ہر صاحب سے دو سال سینیر تھے۔ یہ دوستی آخر دم تک قائم رہی ۔ مولانا جوہر صاحب ۱۹۲۳ء میں سلطان المدارس سے فارغ ہوئے تھے۔
مدرسہ عباسیہ (پٹنہ): 1324 ھ میں مدرسہ عباسیہ کی تاسیس ہوئی جس کا افتتاح ۲۳/ذی الحجہ ۱۳۴۲ ھ کو سر کار باقر العلوم سید محمد باقر صاحب نے فرمایا۔ ماہ صفر ۱۳۴۴ دراگست ۱۹۲۵ء میں مولانا محمد مصطفے جو ہر مدرسہ میں نائب مدرس اعلی ہو کر پہنچے اور اسی سال ۱۳ رجب ۱۳۴4 ھ کو موصوف مدرس اعلی کے عہدے پر فائز ہوئے ۔
۱۹۴۵ء سے پہلے آپ کانپور تشریف لے گئے اور پٹکاپور کی مسجد میں امام جمعه و جماعت کی حیثیت سے مقیم رہے۔ ۱۹۴۷ء میں تقسیم ہند کے بعد بہت سے مومنین ہجرت کر کے پاکستان چلے گئے لیکن آپ ۱۹۴۹ء کے اوائل تک کانپور ہی میں مقیم رہے۔ آخر آپ بھی حیدرآباد تشریف لے گئے لیکن تھوڑے ہی عرصہ بعد وہاں سے کراچی منتقل ہو گئے۔ کراچی میں چھاگلہ کمپاؤنڈ (کھارادر ) میں چار سال محرم کے مجالس سے صبح و شام خطاب فرمایا۔ یہ تقریریں دوسرے دن گجراتی زبان میں شائع ہو جاتی تھیں اور مفت تقسیم کی جاتی تھیں ۔ خوجہ مسجد کھارادر اور سرکاری ملازمین کے قائم کرده مارٹن روڈ کے امام باڑہ میں ابتدائی ایام میں امامت فرمائی ۔ مولانا ظفر حسن امروہوی کے قایم کرده جامعہ امامیہ (ناظم آباد میں دو سال تک بحیثیت مدرس اعلی خدمات انجام دیئے۔ جب آپ نارتھ ناظم آبانتقل ہو گئے تو روزان مغرب کے وقت اپنے شریعت کدہ پر مومنین کا اجتماع منعقد کرتے تھے۔ نماز مغربین کے بعد تفسیر قرآن، حدیث، تاریخ اور دوسرے دینی موضوعات پر تقریر کرتے تھے اور پیچیدہ مسائل کے دینی حل پیش کرتے۔ ان اجتماعات میں برادران اہل سنت کے معزز فقہاء اور علماء بھی شوق سے شرکت کرتے تھے۔ اور بہت سے صاحبان نظر وقتا فوقتا شریک ہوتے رہتے تھے جن میں سے چند نام یہاں بطور مثال پیش کئے جاتے ہیں : جوش ملیح آبادی، علامہ رشید ترابی، پروفیسرعلی حسنین شیفته محمد على حبيب (حبیب بینک) آغا سلطان احمد مرزا دہلوی اور تہذیب الحسن (چیف انجینئر)۔ جو ہرصاحب نے ان تقریروں کا سلسلہ اپنی سخت علالت کے باوجود جاری رکھا تھا۔
حافظہ
استاد معظم مولانا جوہر صاحب جیسا حافظہ میں نے کہیں نہیں پایا ۔ کتابوں کا مطالعہ ان کی زندگی تھی اور جو چیز ایک بار پڑھ لی وہ مرتے دم تک یاد رہی کہ یہ بات کسی کتاب کے کس صفحہ میں ہے۔ حدود ۱۹۷۵ء میں آنکھوں پرموتیابند آ گیا اور آپریشن کیلئے استخارہ ہمیشہ منع آتا رہا اس لئے آپریشن نہ کرایا۔ اس عالم میں بھی جب ان سے پوچھا کہ فلاں کتاب کہاں ملے گی تو تفصیل سے بتاتے تھے کہ فلاں لائن میں مثلا تین کتابوں کو چھوڑ کر چوتھی کتاب نکالو۔ اور وہی مطلوب کتاب ہوتی تھی۔
کتب خانہ
حسین گنج ضلع سیوان کے رئیس اعظم ابو یوسف محمد صاحب مرحوم (متوفی ۱۳ جمادی الاولی ۱۳۲۳ ھ روز پنجشنبه ) عربی، فارسی اور اردو کے ماہر تھے۔ تقوی ، طہارت، نماز شب، نوافل اور روزانہ اعمال عاشورا کے سختی سے پابند تھے۔ کتب بینی کا شوق تھا۔ لکھنو، بمبئی، دہلی حتی کہ ایران عراق سے کتابیں منگواتے رہتے تھے اور تقریبا ہر کتاب پر ان کی تحریر موجودتھی۔ رفتہ رفتہ ایک زبردست کتب خانہ اکٹھا ہو گیا جس میں ہزاروں ماخذ اور مدارک موجود تھے۔ بہار میں صرف انھیں کے پاس بحارالانوار کی پچیس جلدیں موجود تھیں۔ ان کے ورثہ نے وہ کتابیں جوہر صاحب کو استفاده کے لئے دیں۔ اور اب وہ کتابیں مولانا مرحوم کے کراچی کے کتب خان کی زینت ہیں۔
انگریزی
جو ہر صاحب کو انگریزی زبان پر کافی عبور تھا۔ ایک مرتبہ ان پر خارش کا اتنا زبردست حملہ ہوا کہ جسم کا کوئی حصہ محفوظ نہ رہا یہاں تک کہ انگلیوں سے بھی خون وغیرہ نکلتا رہتا تھا۔ ایک طرف تو مطالعہ کے بغیر وقت گزارنا ناممکن تھا دوسری طرف دینی کتاہیں ہاتھ میں لیتے ہوئے ڈر تھا کہ کہیں اور اق نجس نہ ہو جائیں۔ اس مشکل کا حل یہ نکالا کہ الف لیلہ کا انگریزی ترجمہ منگوایا اور اسے پڑھنا شروع کیا۔ ادھر مرض ختم ہوا ادھر کتاب ختم ہوئی اور مولانا انگریزی کے ماہر ہو گئے۔
سادگی و قناعت
تمام عمر بڑی سادہ زندگی بسر کی ۔ معمولی لیکن صاف ستھرا لباس پہنتے۔ سادہ غذا اور وہ بھی قلیل مقدار میں استعمال کرتے ۔ طلب دنیا اور ہوس دنیا سے بے نیاز تھے ۔مجلسیں عبادت سمجھ کر پڑھتے تھے۔ دوران مجلس اگر سامعین میں سے کوئی شخص کوئی سوال کرتا تو بہت خوش ہوتے اور منبر ہی سے تسلی بخش جواب دے کر اسے مطمئن کر دیتے۔ تاعمر مجلس پڑھنے کی اجرت کسی سے نہیں مانگی۔ کبھی کسی کے سامنے دست سوال دراز نہ کیا تفسیر قرآن اور علوم قرآنی سے بہت دلچسپی تھی اور اپنی زندگی کو علوم محمد و آل محمد کیلئے وقف کردیاتھا۔
شاعری
شاعری میں آپ کا استادانه در جہ پٹنہ اور دوسرے ادبی مراکز میں مسلم تھا۔ قیام پٹنہ کے دوران بیسوں نوجوان آپ کی شاگردی کے فیض سے مستند شاعر بن گئے ۔ آپ کے قصائد ، سلام اور رباعیاں اگر زیور طباعت سے آراستہ ہو جائیں تو مدح اہلبیت کا ایک قیمتی ذخیر ہ قوم کے ہاتھوں میں آجائے۔ آپ جوہرؔ تخلص کرتے تھے اور قیس زنگی پوری نے اس تخلص سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ کے نام کا یہ سجع کہا تھا :
عرض دنیا و مافیہا محمد مصطفے جوہر
شادیاں اور اولاد
آپ کی پہلی شادی حسین گنج کے سید محمد کاظم صاحب کی دوسری صاحبزادی سے ہوئی تھی۔ ان کے انتقال کے بعد ان کی چھوٹی بہن سے شادی کی جن سے ایک بیٹی پیدا ہوئیں۔ جب زوجه ثانیہ بھی راہی جنت ہوئیں تو جناب محمد رضاصاحب (حسین گنج ) کی صاحبزادی سے عقد کیا۔ جن سے الله تعالی نے دو بیٹے عطا کئے : طالب جوہری اور ابوالقاسم جوہری۔