قدوۃ العلماء العارفین مولانا سید علی جواد صاحب زنگی پوری، ربیع الثانی سنہ 1274 میں وطن مالوف میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد ماجد سید محمد طاہر صاحب کا انتقال 1276 میں ہوا جب آپ کی عمر صرف دو سال تھی ۔ آپ کے نانا سید عنایت حسین صاحب پاروی کی شادی قاضی مولوی افضل علی خان عرف میر منو صاحب ساکن تیلیا نالہ بنارس کی صاحبزادی سے ہوئی تھی جس کی وجہ سے ان کے عیال بنارس ہی میں مقیم رہے اور سید علی جواد صاحب بھی وہیں رہ گئے ۔ اب ان حضرات کا وطن گویا بنارس ہی ہوگیا۔
تعلیم
ابتدائی تعلیم مولوی امداد علی صاحب بنارسی اور مولوی رضا حسین صاحب نونہروی سے حاصل کرنے کے بعد آپ لکھنؤ گئے جہاں مدرسہ ایمانیہ میں داخل ہوئے ۔ یہ مدرسہ علامہ کنتوری اور جناب سید ابو صاحب اعلی اللہ مقامہما کی تحریک پر سنہ 1289 میں قائم ہوا تھا ۔ جناب سید علی حیدر صاحب قبلہ مجتہد اعلی اللہ مقامہ اس کے مدرس اعلی تھے ۔ آپ مدرسہ سے مشاہرہ نہیں لیتے تھے ۔ صرف گھر سے مدرسہ تک آنے جانے کا پالکی کرایہ لیتے تھے ۔ سید علی جوا صاحب نے مولانا علی حیدر صاحب قبلہ کے علاوہ جناب ابو صاحب ، سید حسن صاحب اور تاج العلماء علی محمد صاحب طاب ثراہم سے کسب فیض کیا ۔ اور درجہ اجتہاد تک پہنچے ۔ آیۃ اللہ شیخ زین العابدین مازندرانی نے بھی آپ کو اجازہ مرحمت فرمایا تھا ۔
قومی خدمات
جواد العلماء کے روحانی فیوض کا ذکر جامع طریقے سے سید مرتضی حسین فاضل نے مطلع انوار میں ان الفاظ میں کیا ہے :
مولانا علی جواد صاحب نے بنارس کو دارالاسلام بنانے میں جو محنت کی ہے اس کی مثال نہیں ملتی ہے ۔ ہندوؤں کا سب سے بڑا مرکز جہاں صدیوں سے مسلمان ہندو ثقافت سے ہندو نما ہوچکے تھے مولانا علی جواد صاحب نے اپنی پاک باطنی ، ریاضت ، علم و عمل، وعظ و نصیحت سے انقلاب پیدا کردیا ۔ مسلمانوں کو ہندوؤں سے جدا کیا ۔ انھیں اسلامی تعلیمات سے با خبر کیا ۔ ان کے ہاتھ کا کھانا ختم کرایا۔ مسلمانوں سے دوکانیں کھلوائیں ۔ ان میں عزت نفس اور احساس مذہب پیدا کیا ۔ شیعہ و سنی کو شیر و شکر کیا اور ہندوؤں سے دشمنی نہ پیدا ہونے دی ۔ محبت کا پیغام اور اخلاق کا درس دیا ۔ آپ کی مجلسوں میں ہندو مسلمان سب شریک ہوتے تھے ۔ تین تین چار چار گھنٹے کے بیان میں کسی کی دل آزاری نہ فرماتے تھے ۔
دور دور سے لوگ مجلس و وعظ میں شرکت کے لئے آتے تھے ۔ خدا نے زبان میں تاثیر اور بیان میں درد دیا تھا ۔ عید غدیر و میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم 17 ربیع الاول ، 13 رجب اور 28 صفر کی مجلسیں دور دور تک مشہور تھیں ۔
جواد العلماء نے اپنے دور مرجعیت میں مدرسہ ایمانیہ بنارس کو حیات تازہ بخشی ۔ کیونکہ آپ اس مدرسہ کے مدرس اعلی تھے ۔ آپ نے مسلمانوں کی اقتصادی اور تعلیمی ترقی کا ڈول ڈالا۔ فلاح الاخوان اور تہذیب الاخلاق کے نام سے دو ادارے قائم کئے جن کے ذریعے معاشی فلاح و بہبود اور تجارتی ترقی کے منصوبے بروئے کار لائے گئے ۔
اولاد
اپنی اولاد کو بھی بہترین تربیت دی تھی ۔ مولانا محمد سجاد صاحب کو اپنے سامنے امامت مسجد اور درس و تدریس کی خدمت سونپ دی تھی ۔ آپ کے دوسرے صاحبزادے سید محمد مرتضی آپ کی وفات سے چھ مہینہ پہلے رحلت کر گئے تھے ۔ اس حساب سے سید محمد مرتضی نے رمضان یا شوال 1338 ھ میں وفات پائی ہوگی ۔
مولانا علی جواد صاحب کی نسل سید محمد مرتضی سے چلی کیونکہ مولانا سید محمد سجاد صاحب کے صرف تین بیٹیاں تھیں ۔ محمد مرتضی کی اولاد کی تفصیل حسب ذیل ہے:
محمد مرتضی : ملا حسن ، ملا محمد طاہر ، طیبہ خاتون
ملا محمد طاہر کے اولاد: ملا احمد حسن ، اصغر حسن ، محمود حسن ، مقصود حسن
وفات
جواد العلماءنے بنارس میں 14 ربیع الاول سنہ 1339 ھ میں رحلت فرمائی اور وہیں دفن ہوئے ۔