علامہ سید مجتبی حسن بن سید محمد نذیر صاحب کاموں پور ضلع غازی پور کے مشاہیر علما میں تھے ۔ 1331 ھ کو ایک متدین گھر میں پیدا ہوئے ، مئو اور بنارس میں ابتدائی تعلیم حاصل کی ۔ اعلی تعلیم کے لئے کچھ عرصے مدرسہ ناظمیہ اور سلطان المدارس لکھنو میں رہے ۔ بچپنے سے شعر و ادب کے دلدادہ اور قدیم و جدید کی تفریق سے بیزار اور نئی نسل کو نئے انداز سے تعلیم دین دینے کے خواہش مند تھے ۔ محنت و مطالعہ خمیر میں داخل تھا ۔ ایک ایک سال میں دو دو امتحان دیئے ۔ الہ آباد بورڈ اور لکھنو یونیورسیٹی سے عربی ، فارسی و اردو کی سندیں حاصل کیں ۔ سلطان المدارس سے 1931 میں صدر الافاضل پاس کیا ۔ یعنی شرح لمعہ ، قوانین ، فصول ، شرح مطالع الانوار ، ملا صدرا ، تشریح الافلاک ، نہج البلاغہ ، متبنی کا دیوان، حماسہ ، شرح تجرید، احقاق الحق، شرح کبیر و رسائل و اصول کافی کا درس لیا۔
اساتذۃ میں مفتی محمد علی صاحب ، مولانا سید محمد ہادی صاحب ، مولانا محمد رضا صاحب ، مولانا عالم حسین صاحب مولانا سبط حسن صاحب کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔ صدر الافاضل کی سند ملتے ہی پٹنہ کے مدرسہ دینیہ میں استاد مقرر ہوگئے ۔ اس مدت میں عربی و فارسی و اردو میں سینکڑوں مضمون و مقالات اور بے شمار منظومات لکھ ڈالے ۔ طبیعت میں بلا کی آمد اور خیالات میں غضب کا ہیجان تھا۔ مطالعہ کا شوق فراواں اور لکھنے کا ملکہ پاک و ہند کے تمام شیعہ رسائل و اخبارات میں لکھتے تھے ۔ نئے سے نئے موضوع اور قدیم سے مباحث پر تحقیق قوم کی علمی برتری کی لگن، جوانوں میں تبلیغ کا شوق ، جدید علوم پڑھنے والوں سے خطاب ، ادب و تاریخ کے حوالے سے قدیم و جدید کو ہم آہنگ کرنے کی مہم چلائی ۔ دینی مدارس کا پرانا نصاب ، شیعہ سنی نظام فکر کا پیچ انھیں اچھا نہ لگتا تھا ۔ وہ مشرقی علوم کی عظیم دانش گاہ ازہر اور نجف میں رہ کر نئے تجربے کرنا چھاہتے تھے ۔ اس لئے 1935 میں مصر گئے ۔ اور 1936 میں الازہر کے منتظم اعلی نے داخلہ منظور کرلیا۔ الازہر میں مولانا مجتبی حسن سے پہلے کسی ہندی طالب علم کو داخلہ نہیں ملا تھا ۔ انھیں ازہر میں تعصب کا نیا عالم نظر آیا ۔ وہاں کسی شیعہ کا گذر بھی نہ ہوسکتا تھا ۔ مولانا نے بھی اظہار تشیع کے بغیر داخل ہوئے تھے ۔
امتحان کے بعد مولانا مجتبی حسن صاحب نے الازہر سے ام المومنین ام سلمہ پر ریسرچ کی منظوری لی اور شب و روز کی انتھک محنت کے بعد دو ہزار سے زائد صفحات لکھ کر اساتذہ کو دکھائے ۔ جامعہ کے بورڈ نے پوری چھان بین اور امتحان کے بعد انھیں فلسفہ تاریخ و تربیت و اخلاق پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی۔ مولانا مجتبی حسن کاموں پوری نے مصر میں انقلابی نظریات ، ادبی تحریکات اور مشہور علمی زعما کو قریب سے دیکھا ۔ ابھرتے ہوئے مصر کے مشاہیر علم و تحقیق سے ملاقاتیں کیں ۔ حافظ ابراہیم ، شوقی ، طنطاوی جوہری، ڈاکٹر امین و ....... سے دوستانہ روابط استوار کیے۔ انھیں علوم آل محمد علیہم السلام سے متعارف کرانے کی کوشش کی ۔ اس دور میں محمد عبدہ نے نہج البلاغہ کی نشر و اشاعت میں حصہ لیا تھا ۔ محمد عبدہ کے شاگرد رشید رضا اور طنطاوی جوہری کی تفسیر کے چرچے ہو رہے تھے ۔ اس وقت مجتبی حسن صاحب نے صحیفہ کاملہ کے مطالعہ کو عام کرنا چاہا ۔ آخر بعض بعض بڑے مفکرین نے صحیفہ پر بہت اچھے اچھے مضامین لکھے ۔ پانچ سال تک مصر میں قیام رہا ۔ ڈاکٹریٹ کی ڈگری اور انسان شناسی کا تجربہ لے کر نجف و کربلا ہوتے ہوئے 1941 میں لکھنو وارد ہوئے ۔
صحافت و سیاست جدید و قدیم کا فرق ختم کرنے قوم کے فکری نظام کی اصلاح ان کے رجحانات کے مقاصد تھے ۔ اس لئے قومی حلقوں نے ان کا خیر مقدم کیا ۔ وہ لکھتے رہے ، بولتے رہے ، پڑھتے رہے پڑھاتے رہے ۔ اس کے سوا انھیں اور کوئی دھن نہ تھا۔ نہ کھانے کی پرواہ نہ پہننے کا شوق ، نہ پروپکنڈے کا سلیقہ ، نہ ظاہر داری کا ڈھنگ، شوق تھا تو صرف کتاب خریدنے اور مطالعہ کرنے کا ۔ ان کے پاس بیٹھنے والے جدید علوم و افکار پر سیر حاصل تقریر سن کر اٹھتے تھے ۔ ان کے دوست نئی سے نئی کتاب اور قدیم سے قدیم مسئلہ پر نفیس نکات بحث و نظر سامنے لے کر آتے تھے ۔ عورت کی تعلیم و تربیت ، مذہب اور علوم جدیدہ، تاریخ اسلام خصوصا کربلا کے واقعات ، امام حسین علیہ السلام اور امام علی علیہ السلام پر مولانا نے جتنا پڑھا اور لکھا ان کے کسی معاصر نے اتنے متنوع انداز میں نہیں پڑھا ۔ لیکن وہ کسی موضوع پر جم کر نہ لکھ سکے ۔ تاریخ میں وہ کسی بڑے سے بڑے مغربی محقق سے کم نہ تھے ۔ اور عربی ادب میں وہ عربوں کی نظر اور اہل زبان کا مزاج رکھتے تھے مگر انھیں کما حقہ فراغت تصنیف و تالیف نہ ملی ۔ معاون اور ساتھی نہ ہونے کی بنا پر وہ پھیل نہ سکے۔
فن خطابت
فن خطابت و تقریر میں انھوں نے جدید نفسیاتی اسلوب اور علمی وزن کا اضافہ کیا ۔ وہ کامیاب خطیب اور جوانوں کے حلقے میں محبوب مقرر تھے ۔ شیعہ سنی سب ان کی تقریر کو پسند کرتے تھے ۔
مدرسۃ الواعظین مدرسہ ناظمیہ 1945 سے 1952 تک لکھنو یونیورسیٹی اور 1952 سے 1974 تک علی گڑھ یونیورسیٹی میں تدریسی فرائض انجام دیئے ۔ مدرسہ ناظمیہ آل انڈیا شیعہ کانفرنس، آل انڈیا اسلامی تعلیمی بورڈ ، تعلیمی کمیٹی مدرسہ عالیہ رام پور ۔ آل انڈیا اورنٹیل کانگرس، الواعظ، سرفراز، الرضوان کے اداروں میں اہم رکن کی حیثیت سے ممتاز تھے ۔ امامیہ مشن لاہور کو انھوں نے ایک علمی منصوبہ دیا ۔ حسینی مشن راولپنڈی کی سرپرستی کی ۔
23 سال تک علی گڑھ یونیورسیٹی میں صدر شعبہ دینیات کی حیثیت سے کام کرنے کے بعد 27 جمادی الثانی 1394 سوا تین بجے علی گڑھ میں سفر آخرت فرمایا ۔ اور بڑا کتب خانہ پڑھی لکھی اولاد اور متعد تصانیف یادگار چھوڑیں ۔
اولاد
عندلیب زہرا
قاسم مجتبی
فیض مجتبی
حسن مجتبی
اقبال مجتبی
مہناز مجتبی
شمیم کاظم
شبیر کاظم
شبیہ زہرا
قمر زہرا
ممتاز زہرا
شہناز