براہ کرم پہلے مطلوبہ لفظ درج کریں
سرچ
کی طرف سے تلاش کریں :
علماء کا نام
حوزات علمیہ
خبریں
ویڈیو
16 شَوّال 1445
ulamaehin.in website logo
ڈاکٹر علامہ مجتبی حسن کاموپوری

علامه سید مجتبی حسن

Allama Mujtaba Hasan Kamupuri

ولادت
1331 ه.ق
کاموں پور
وفات
27 جمادی الثانی 1394 ه.ق
علی گڑھ
والد کا نام : سید محمد نذیر
تدفین کی جگہ : علی گڑھ
شیئر کریں
ترمیم
کامنٹ
سوانح حیات
تصانیف
تصاویر

سوانح حیات

علامہ سید مجتبی حسن بن سید محمد نذیر صاحب کاموں پور ضلع غازی پور کے مشاہیر علما میں تھے ۔ 1331 ھ کو ایک متدین گھر میں پیدا ہوئے ، مئو اور بنارس میں ابتدائی تعلیم حاصل کی ۔ اعلی تعلیم کے لئے کچھ عرصے مدرسہ ناظمیہ اور سلطان المدارس لکھنو میں رہے ۔ بچپنے سے شعر و ادب کے دلدادہ اور قدیم و جدید کی تفریق سے بیزار اور نئی نسل کو نئے انداز سے تعلیم دین دینے کے خواہش مند تھے ۔ محنت و مطالعہ خمیر میں داخل تھا ۔ ایک ایک سال میں دو دو امتحان دیئے ۔ الہ آباد بورڈ اور لکھنو یونیورسیٹی سے عربی ، فارسی و اردو کی سندیں حاصل کیں ۔ سلطان المدارس سے 1931 میں صدر الافاضل پاس کیا ۔ یعنی شرح لمعہ ، قوانین ، فصول ، شرح مطالع الانوار ، ملا صدرا ، تشریح الافلاک ، نہج البلاغہ ، متبنی کا دیوان، حماسہ ، شرح تجرید، احقاق الحق، شرح کبیر و رسائل و اصول کافی کا درس لیا۔

اساتذۃ میں مفتی محمد علی صاحب ، مولانا سید محمد ہادی صاحب ، مولانا محمد رضا صاحب ، مولانا عالم حسین صاحب مولانا سبط حسن صاحب کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔ صدر الافاضل کی سند ملتے ہی پٹنہ کے مدرسہ دینیہ میں استاد مقرر ہوگئے ۔ اس مدت میں عربی و فارسی و اردو میں سینکڑوں مضمون و مقالات اور بے شمار منظومات لکھ ڈالے ۔ طبیعت میں بلا کی آمد اور خیالات میں غضب کا ہیجان تھا۔ مطالعہ کا شوق فراواں اور لکھنے کا ملکہ پاک و ہند کے تمام شیعہ رسائل و اخبارات میں لکھتے تھے ۔ نئے سے نئے موضوع اور قدیم سے مباحث پر تحقیق قوم کی علمی برتری کی لگن، جوانوں میں تبلیغ کا شوق ، جدید علوم پڑھنے والوں سے خطاب ، ادب و تاریخ کے حوالے سے قدیم و جدید کو ہم آہنگ کرنے کی مہم چلائی ۔ دینی مدارس کا پرانا نصاب ، شیعہ سنی نظام فکر کا پیچ انھیں اچھا نہ لگتا تھا ۔ وہ مشرقی علوم کی عظیم دانش گاہ ازہر اور نجف میں رہ کر نئے تجربے کرنا چھاہتے تھے ۔ اس لئے 1935 میں مصر گئے ۔ اور 1936 میں الازہر کے منتظم اعلی نے داخلہ منظور کرلیا۔ الازہر میں مولانا مجتبی حسن سے پہلے کسی ہندی طالب علم کو داخلہ نہیں ملا تھا ۔ انھیں ازہر میں تعصب کا نیا عالم نظر آیا ۔ وہاں کسی شیعہ کا گذر بھی نہ ہوسکتا تھا ۔ مولانا نے بھی اظہار تشیع کے بغیر داخل ہوئے تھے ۔

امتحان کے بعد مولانا مجتبی حسن صاحب نے الازہر سے ام المومنین ام سلمہ پر ریسرچ کی منظوری لی اور شب و روز کی انتھک محنت کے بعد دو ہزار سے زائد صفحات لکھ کر اساتذہ کو دکھائے ۔ جامعہ کے بورڈ نے پوری چھان بین اور امتحان کے بعد انھیں فلسفہ تاریخ و تربیت و اخلاق پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی۔ مولانا مجتبی حسن کاموں پوری نے مصر میں انقلابی نظریات ، ادبی تحریکات اور مشہور علمی زعما کو قریب سے دیکھا ۔ ابھرتے ہوئے مصر کے مشاہیر علم و تحقیق سے ملاقاتیں کیں ۔ حافظ ابراہیم ، شوقی ، طنطاوی جوہری، ڈاکٹر امین و ....... سے دوستانہ روابط استوار کیے۔ انھیں علوم آل محمد علیہم السلام سے متعارف کرانے کی کوشش کی ۔ اس دور میں محمد عبدہ نے نہج البلاغہ کی نشر و اشاعت میں حصہ لیا تھا ۔ محمد عبدہ کے شاگرد رشید رضا اور طنطاوی جوہری کی تفسیر کے چرچے ہو رہے تھے ۔ اس وقت مجتبی حسن صاحب نے صحیفہ کاملہ کے مطالعہ کو عام کرنا چاہا ۔ آخر بعض بعض بڑے مفکرین نے صحیفہ پر بہت اچھے اچھے مضامین لکھے ۔ پانچ سال تک مصر میں قیام رہا ۔ ڈاکٹریٹ کی ڈگری اور انسان شناسی کا تجربہ لے کر نجف و  کربلا ہوتے ہوئے 1941 میں لکھنو وارد ہوئے ۔

صحافت و سیاست جدید و قدیم کا فرق ختم کرنے قوم کے فکری نظام کی اصلاح ان کے رجحانات کے مقاصد تھے ۔ اس لئے قومی حلقوں نے ان کا خیر مقدم کیا ۔ وہ لکھتے رہے ، بولتے رہے ، پڑھتے رہے پڑھاتے رہے ۔ اس کے سوا انھیں اور کوئی دھن نہ تھا۔ نہ کھانے کی پرواہ نہ پہننے کا شوق ، نہ پروپکنڈے کا سلیقہ ، نہ ظاہر داری کا ڈھنگ، شوق تھا تو صرف کتاب خریدنے اور مطالعہ کرنے کا ۔ ان کے پاس بیٹھنے والے جدید علوم و افکار پر سیر حاصل تقریر سن کر اٹھتے تھے ۔ ان کے دوست نئی سے نئی کتاب اور قدیم سے قدیم مسئلہ پر نفیس نکات بحث و نظر سامنے لے کر آتے تھے ۔ عورت کی تعلیم و تربیت ، مذہب اور علوم جدیدہ، تاریخ اسلام خصوصا کربلا کے واقعات ، امام حسین علیہ السلام اور امام علی علیہ السلام پر مولانا نے جتنا پڑھا اور لکھا ان کے کسی معاصر نے اتنے متنوع انداز میں نہیں پڑھا ۔ لیکن وہ کسی موضوع پر جم کر نہ لکھ سکے ۔ تاریخ میں وہ کسی بڑے سے بڑے مغربی محقق سے کم نہ تھے ۔ اور عربی ادب میں وہ عربوں کی نظر اور اہل زبان کا مزاج رکھتے تھے مگر انھیں کما حقہ فراغت تصنیف و تالیف نہ ملی ۔ معاون اور ساتھی نہ ہونے کی بنا پر وہ پھیل نہ سکے۔

 

فن خطابت

فن خطابت و تقریر میں انھوں نے جدید نفسیاتی اسلوب اور علمی وزن کا اضافہ کیا ۔ وہ کامیاب خطیب اور جوانوں کے حلقے میں محبوب مقرر تھے ۔ شیعہ سنی سب ان کی تقریر کو پسند کرتے تھے ۔

 

مدرسۃ الواعظین مدرسہ ناظمیہ 1945 سے 1952 تک لکھنو یونیورسیٹی اور 1952 سے 1974 تک علی گڑھ یونیورسیٹی میں تدریسی فرائض انجام دیئے ۔ مدرسہ ناظمیہ آل انڈیا شیعہ کانفرنس، آل انڈیا اسلامی تعلیمی بورڈ ، تعلیمی کمیٹی مدرسہ عالیہ رام پور ۔ آل انڈیا اورنٹیل کانگرس، الواعظ، سرفراز، الرضوان کے اداروں میں اہم رکن کی حیثیت سے ممتاز تھے ۔ امامیہ مشن لاہور کو انھوں نے ایک علمی منصوبہ دیا ۔ حسینی مشن راولپنڈی کی سرپرستی کی ۔

23 سال تک علی گڑھ یونیورسیٹی میں صدر شعبہ دینیات کی حیثیت سے کام کرنے کے بعد 27 جمادی الثانی 1394 سوا تین بجے علی گڑھ میں سفر آخرت فرمایا ۔ اور بڑا کتب خانہ پڑھی لکھی اولاد اور متعد تصانیف یادگار چھوڑیں ۔

 

اولاد

عندلیب زہرا

قاسم مجتبی

فیض مجتبی

حسن مجتبی

اقبال مجتبی

مہناز مجتبی

شمیم کاظم

شبیر کاظم

شبیہ زہرا

قمر زہرا

ممتاز زہرا

شہناز

مزید دیکھیں

تصانیف

کربلا

مقتل عقبة بن سمعان

مقتل ضحاک مشرقی

مقتل السيوطى

مقتل ابن واضح یعقوبی

مقتل ابو الفدا

مقتل ناسخ

مقتل دیار بکری

مزید دیکھیں
تصاویر
2ڈاؤن لوڈز
زوم
ڈاؤن لوڈ
شیئر کریں
دیگر علما
کامنٹ
اپنا کامنٹ نیچے باکس میں لکھیں
بھیجیں
نئے اخبار سے جلد مطلع ہونے کے لئے یہاں ممبر بنیں
سینڈ
براہ کرم پہلے اپنا ای میل درج کریں
ایک درست ای میل درج کریں
ای میل رجسٹر کرنے میں خرابی!
آپ کا ای میل پہلے ہی رجسٹر ہو چکا ہے!
آپ کا ای میل کامیابی کے ساتھ محفوظ ہو گیا ہے
ulamaehin.in website logo
ULAMAEHIND
علماۓ ہند ویب سائٹ، جو ادارہ مہدی مشن (MAHDI MISSION) کی فعالیتوں میں سے ایک ہے، علماۓ کرام کی تصاویر اور ویڈیوز کو پیش کرتے ہوۓ، ان حضرات کی خدمات کو متعارف کرواتی ہے۔ نیز، اس سائٹ کا ایک حصہ ہندوستانی مدارس اور کتب خانوں، علماء کی قبور کو متعارف کروانے سے مخصوص ہے۔
Copy Rights 2024