کھجوہ ضلع سارن میں مجاہد بالقلم مولانا علی اظہر صاحب کے یہاں وہ فرزند پیدا ہوا جس کا نام علی حیدر رکھا گیا اس وقت مولانا سید حسن باخدا زندہ تھے ، علی حیدر نے مقدس دا دا اور مجاہد باپ کی گود میں آنکھیں کھولیں ، اور چار پانچ سال کی عمر میں قرآن مجید دینیات پڑھ لیں ۔ پھر ہائی اسکول میں داخل ہوئے ۔ ۱۳۲۱ ھ میں ہائی سکول کا امتحان پاس کرکے انجینئرنگ کالج میں نام لکھوایا لیکن ڈاکٹروں نے سینہ کمزور قرار دے کر تعلیم سے روک دیا ۔
سنہ ۱۳۲۲ ھ میں مولانا علی اظہر صاحب عیال واطفال کے ساتھ زیارت عتبات عالیات کے لیے گئے ۔ اس سفر میں مولانا الحکیم علی اظہر صاحب نے آیت اللہ حسین درانی آیۃ اللہ الشیخ محمد حسین نجفی آیت اللہ شیخ شریعت اصفہانی آیت اللہ سید کاظم یزدی سے اجازت لئے اور مولانا علی حیدر صاحب نے ان اکابر کی زیارت کی۔
وطن آئے تو اپنے والد کے مشغلے تصنیف و تالیف میں ہاتھ بٹانے لگے تقریبا تین سال تک والد سے مستفید رہ کر ۱۳۲۵ ھ میں لکھنؤ جانے پر آمادہ ہوئے۔
مولانا علی اظہر صاحب اپنے بھائی مولوی محمد حیدر صاحب ایڈیٹر-شمس اور علی حیدر صاحب کے ساتھ لکھنؤ آئے اور فرزند کو اکابر علما و اساتذہ کی خدمت میں پیش کرکے وطن پلٹے ۔ علما نے نوجوان کو علوم جدیدہ سے باخبر صاحب قلم و صاحب نظر دیکھا تو بہت محبت کرنے لگے ۔ تمام علماء سے خاندانی روابط تھے ۔ سب نے خاص توجہ کی اور ذہین اور وسیع معلومات طالب علم نے سب کے دلوں میں گھر کرلیا ۔ بنیادی علوم و فنون میں پختگی ہو چکی تھی ۔ ادھر پنجاب یونیورسیٹی کے امتحان مولوی فاضل کی دھاک بیٹھی تھی ۔ اس امتحان میں کامیابی طرہ امتیاز سمجھی جاتی تھی ۔ مولوی علی حیدر صاحب ۱۳۲۸ ھ میں لاہور آئے۔ اورینٹل کالج میں داخلہ لیا دو سال پڑھنے کے بعد ۱۳۳۰ھ میں مولوی فاضل کا امتحان دے کر گھر ہوتے ہوئے لکھنؤ واپس پہنچے۔
پنجاب یونیورسٹی میں فرسٹ پوزیشن کے ساتھ مولوی فاضل کی سند نے علمی حلقے میں ان کی دھاک بٹھا دی۔ مدرسہ سلطان المدارس میں ان کی جگہ محفوظ تھی جناب باقرالعلوم سید باقر صاحب قبلہ کی غیر معمولی محبت و پدرانہ شفقت نے طلبہ کے کو سربلند بنا رکھا تھا۔ مولانا علی حیدر صاحب نے تقریر تحریری مقابلوں میں ممتاز کامیابیاں حاصل کیں۔
جناب مرزا یوسف حسین صاحب قبلہ فرماتے ہیں:
میں مسلم علوم جماعت نہم کا طالب علم تھا اور مولانا علی حیدر صاحب صدرالافاضل کے آخری سال میں ان کے ساتھ غالبا مولانا حیدر حسین صاحب نکہت، ملا یوسف صاحب مولانا محمد صادق صاحب برادر مولانا جعفر صاحب ہیں، اور مولانا سید محمد صاحب امروہی پڑھتے تھے۔ اس جماعت کا امتحان اس لیے یاد ہے کہ میں نے سلم کا پرچہ آٹھ گھنٹے ے تک لکھا اور مولانا کی جماعت10 بجے دن سے تقریبا نصف شب تک جواب لکھتی رہی ۔
۱۳۳۶ھ میں صدر الافاضل سے فراغت پائی ۔ وطن آئے تو والد کو مصروف تصنیف وتالیف دیکھا اس وقت الشمس و اصلاح دو ماہنامہ نکل رہے تھے ۔ مولانا علی اظہر صاحب کے تالیفات الگ تھے۔ لہذا والد کا ہاتھ بٹانا شروع کیا ۔
دین یا دنیا؟ کھجوہ میں ایک ذہین ، قابل ، صاحب قلم ، مقرر ، انٹریس پاس ، علوم دین کا عالم سب کے لئے دلچسپی کا باعث تھا۔ خاندان کے طرقی پسند چاہتے تھے کہ علی حیدر نوکری کر لیں اور شوق خدمت دین کا تقاضا تھا کہ خبردار یہ نہ کرنا۔ اسی اثنا میں بنگال کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر تعلیمات کا خط آیا کہ پریسیڈنٹ سی کالج میں عربی لیکچرار کی جگہ خالی ہے ایک سو پچیس روپے تنخواہ ہو گئی درخواست بھیج دو۔ ادھر اس سے کم تنخواہ پر مدرسہ سلیمانیہ پٹنہ میں طلب تھی آپ نے مدرسے کو ترجیح دی اور لکچرر شپ کو منع کردیا۔
مولانا سمجھتے تھے کہ پٹنے میں رہیں گے تو پریس کا انتظام خاطرخواہ ہو جائے گا۔
اولاد
متعدد فرزندان و دختران میں سے مولانا محمد باقر صاحب ، مولانا آغا جعفر صاحب اور مولوی سید رضی جعفر صاحب