آپ مولانا سید نیاز حسن صاحب طاب ثراہ کے بڑے فرزند تھے ۔ آپ کا سلسلہ نسب 43 ویں پشت میں امام زین العابدین علیہ السلام سے مل جاتا ہے ۔ راحت عزمی نے لکھا ہے کہ مولانا نیاز حسن کے ماموں ’’ نواب محتشم جنگ دانش الملک وزیر بہادر شاہ ثانی کے بہنوی تھے ۔
سید بندہ حسن صاحب حیدر آباد میں پیدا ہوئے ۔ ولادت و وفات کے سال معلوم نہ ہوسکے ۔ لیکن آپ کے چھوٹے بھائی حدود 1282 ھ میں پیدا پوئے تھے اس لئے آپ 1279 ےا 1280 ھ میں پیدا ہوئے ہوں گے ۔ مولانا کے والد کے علاوہ تین چچا بھی مجتہد تھے ۔ گھر مجتہدین کا مرکز تھا ۔
سید بندہ حسن کی تعلیم گھر سے شروع ہوئی پھر حیدر آباد کے دوسرے علماء سے استفادہ کیا ۔ اس کے بعد لکھنو گئے ۔ وہاں سے فارغ التحصیل ہو کر حیدرآباد آئے تو آپ کے منجھلے بھائی مولانا سید ابولحسن عرف میرن صاحب نے (جو پہلے سے درجہ اجتہاد پر فائز تھے ) امراء و رؤسا اور معتقدین کی موجودگی میں آپ کے سر پر عمامہ باندھا اور مسجد اثنا عشری میں امامت جماعت کے لئے اپنا نائب مقرر کیا ۔ آپ ہر جمعہ کو موعظہ فرماتے تھے اور ایام عزا میں مجلسیں پڑھتے تھے ۔
1323ھ میں نواب سرمحبوب علی خاں آصف جاہ سادس نے اپنی سلور جوبلی کے موقع پر آپ کو خلعت عطا کی ۔
1329 ھ سے 1341 ھ تک آپ ہوم آفس کی نصاب کمیٹی کے رکن رہے اور شیعہ دینیات کا نصاب مرتب کیا ۔ اس کے علاوہ قوانین تعزیرات کی مجلس قوانین کے رکن رہے اور درقہ شیعہ کی نمایندگی کی ۔ آپ مجلس اتحاد المسلمین کی مجلس عامہ کے بھی رکن رہے ۔
آپ نے حسینیہ کے نام سے ایک دینی درسگاہ قائم کی تھی ۔
مولانا نے مختلف ممالک کے سفر کئے ۔ عتبات عالیات کی زیارت سے پانچ بار مشرف ہوئے ۔ ان میں سے ایک سفر 1333 ھ میں کیا تھا ۔
آپ کا مطالعہ بہت وسیع تھا اور صاحب تصانیف بھی تھے ۔ ایک کتاب نتیجہ الحیاۃ فی احکام الاموات بہت مشہور ہے ۔ علم الانساب پر ایک کتاب اشجار الانساب تین جلدوں میں لکھی اور ہر جلد کا نام مستقل رکھا ۔ پہلی جلد معدن الانساب ، دوسری نغز الانساب اور تیسری مخزن الانساب تھی۔
خلق خدا کی خدمت میں ہمیشہ منہمک رہے ۔ بلا لحاظ مذہب و ملت ہر ایک کی حاجت تا حد امکان پوری کردیتے تھے ۔ ہر قوم و مذہب کے لوگ آپ کا احترام کرتے تھے اور اکثر اپنے نزاعی مسائل کے حل کے لئے آپ کی طرف رجوع کرتے تھے ۔
سنہ انتقال معلوم نہ ہوسکا ۔ دایرہ میر مومن میں دفن ہوئے ۔