مولانا مفتی محمد قلی کنتوری کے بڑے فرزند مولانا سراج حسین صاحب علم و فضل میں بڑی اہم شخصیت کے مالک تھے۔ ان کے اوصاف و کمالات کے لئے جناب مفتی محمد عباس صاحب قبلہ کے تعزیت نامہ (وفات محمد قلی ) کا سرنامہ دیکھیئے:
’’ السید الزکی ، الفاضل الیلمعی، الحجر اللوذعی، الخل الوفی، الخدن الرضی ، المتوازع الاریحی، المتورع التقی‘‘
نجوم السما میں انھیں فاضل جلیل ، حکیم عصر و فلسفی ماہر لکھا ہے ۔ تفسیر و فقہ و حدیث و عوم اسلامیہ کے بعد جدید علوم اور انگریزی زبان سے بھی واقفیت حاصل کی ۔ انھوں نے سرسید کی تاریخ میں اساسی حصہ لیا۔
ہمامیٹری و ہندسہ ، علم مناظر و علم مرات میں حیرت انگیز مہارت رکھتے تھے۔ مچنوی روم و تصوف کے اسرار و رموز سننے والے انھیں صوفی و ولی مانتے تھے ۔ لکھنؤ میں آپ کے والد کی بڑی شاندار کوٹھی تھی۔ یہ کوٹھی 1857 کے ہنگامے میں مسمار ہوگئی، ان کے چھوٹے بھائی مولانا اعجاز حسین صاحب نے خبر لکھی تو بڑی بے پروائی سے کہا: خوب شد اسباب خودبینی شکست۔
اپنے کھپریل کے مکان میں سادگی سے رہتے تھے لذیذ کھانے پر سوکھی روٹی کو ترجیح دیتے تھے ، مریضوں کا علاج کرتے ، غذا اور مالی امداد دیتے تھے ، سلیمن رزیڈینٹ بہت قدر کرتا تھا۔
راجہ رتن سنگھ نے اپنی ریاست چرکھاری میں بلالیا تھا ۔ آپ نے سو روپے سے زیادہ تنخواہ لینے سے انکار کیا۔ ریاست میں غربا اور مریضوں کی خدمت کی موصوف نے کہا تھا کہ ان کی موت سانپ کے کانٹنے یا ہیضے سے ہوگی، اتفاقا 27 ربیع الاول 1282 ھ میں ہیضہ کا شکار ہوئے ۔ آخری حالت تھی کہ ایک فقیر منش ٹھاکر دیکھنے آیا ، صورت دیکھ کر کہنے لگا: مولوی جی اپنے گرو کا نام لو! مولانا نے فرمایا یا علی ، اور چپ ہوگئے ۔ چرکھاری ہی میں دفن کیے گئے ۔
مفتی صاحب نے تاریخ کہی ہے:
اٹھ گئے مولوی سراج حسین
جن سے پھولا پھلا تھا باغ دیں
اس مصیبت کے سال کی تاریخ
کر رقم اب بجھا چراغ دیں
1282
چرکھاری میں آپ کا مزار زیارت گاہ خلائق ہے۔ لوگوں کی دعائیں قبول اور کرامات ظاہر ہوتی ہیں۔
کہتے ہیں ایک مرتبہ سخت قحط پڑا ، لوگ گھبرا گئے ، انھیں دنوں ایک ہندو عقیدت مند پیتل کی لٹیا میں پانی لے کر آیا ، قبر پر پانی چھڑک کر کہنے لگا:
مولوی بابا مرے جاتے ہیں پانی برساؤ
خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اسی دن بارش بھی ہوگئی۔
اولاد
مولانا عنایت حسین
مولانا کرامت حسین جج