برصغیر پاک و ہند کی ایک معروف ترین شیعہ شخصیت تھی ۔ ابتدائی اور متوسط درجے تک اپنے والد ابو القاسم حائری کے پاس حاصل کی اور پھر عراق گئے جہاں مختلف اساتذہ سے اجازۂ اجتہاد حاصل کرنے کے بعد واپس آئے اور لاہور میں رہ کر مذہبی خدمات تبلیغ و تحریر کی صورت میں انجام دینا شروع کیں۔ علامہ اقبال لاہوری آپ کے پاس اکثر و بیشتر آتے ۔ لوامع التنزیل کے نام سے قرآن پاک کی تفسیر کہ جسے آپ کے والد نے شروع کیا اور اسکی 12 جلدیں لکھیں آپ نے اسے تکمیل کرنا شروع کیا اور اسکی 15 جلدین لکھیں لیکن پھر بھی وہ تکمیل نہ ہو سکی ۔ مرزا غلام احمد قادیانی کے نظریات کے مخالف تھے اسکے خلاف علمی اقدام بھی کئے نیز اسکے مرتد ہونے کا فتوا صادر کیا ۔ علمی ذخیرے میں 50 سے زیادہ آثار چھوڑے ۔بعض نے 72 تک تعداد بیان کی ہے۔آپ کی رحلت کے دن لاہور کے تعلیمی ادارے بند رہے ۔
آپ کا اصل وطن مملکت ایران کا شہر قم تھا۔ سلسلہ نسب امام علی رضا ؑ تک پہنچتا ہے اس لئے رضوی کہلاتے ہیں۔ آپ کےجد امجد سید حسین قمی ایران سے وارد کشمیر ہوئے اور پشمینہ کا کاروبار کرنے لگے۔ آپ کی ایک شاخ اب تک کشمیر میں آباد ہے۔
علامہ سید علی حائری ۱۲۹۸ ھ ( ۱۸۸۱ ء ) میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ فقہ ، اصول فقہ ، اور علم تفسیر و حدیث جیسے علوم اپنے والد ماجد ابو القاسم حائری سے پڑھے پھر بغرض تکمیل علوم عتبات عالیات ( عراق و عرب ) کو روانہ ہوئے۔ سامرہ میں مرزا محمد حسن شیرازی اور مرزا حبیب اللہ رشتی نجفی کے درس میں شریک رہے، انکے علاوہ آقا سید کاظم طباطبائی ، آقا مازندرانی ، ملا محمد کاظم خراسانی اور سید ابو القاسم طباطبائی نے آپ کو اجازت مرحمت فرمائے۔
دسمبر 1911ء میں شہنشاہ جارج پنجم کی تاجپوشی کے موقعہ پر آپ پنجاب کے شیعوں کی طرف سے دربار دہلی میں مدعو کئے گئے۔ [1]
سنہ 1915ء میں آل انڈیا شیعہ کانفرس لکھنؤ کے اجلاس میں آپ کو کرسئ صدارت پر بٹھایا گیا۔ شیعہ کالج لکھنؤ کےقیام کے سلسلے میں بھی آپ متعلقہ اجلاس کی روح رواں تھے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے قیام کی خاطر ایک خطیر رقم اپنی جانب سے بطور نذر پیش کی۔ مولانا نہایت وجیہہ ، بے حد جامہ زیب اور بہت ہی خوش گلو تھے۔آپ کی تقاریر قرآن و حدیث کے تحت نہایت مدلل ہوتی تھیں۔جملہ مذاہب کے لوگ آپکے سامعین ہوتے ۔ آپ کی ہر دلعزیزی اور علمی فضیلت کی بناء پر حکومت نے یکم جنوری 1927ء کو ایک نوٹیفیکیشن[2] کے ذریعے آپ کو شمس العلماء کا خطاب عطا کیا۔
آپ پہلے اندرون شہر چوک نواب صاحب متصل مسجد نواب صاحب قزلباش رہا کرتے تھے۔ ۱۹۳۰ ء میں آپ نے شہر سے باہر وسن پورہ میں اپنا مکان تعمیر کرا لیا اور وہیں ایک وسیع و عریض مسجد بھی بنوائی جسے جامعہ حائری کہتے ہیں۔
اولاد
آپ کی اولاد میں تین بیٹے سید رضی رضوی ، سید زکی رضوی ، سید تقی رضوی ، تھے جنہوں نے دنیاوی تعلیم حاصل کی ۔